مریضوں کی صحت یابی کیلئے عثمانیہ دواخانہ جیسی موزوں عمارت سارے ملک میں نہیں

شہر میں چار سو سال سے زائد قدیم عمارتیں ، عثمانیہ پر ہی نظریں کیوں ؟
ممتاز ماہر امراض قلب و صدر انجمن طلبائے قدیم عثمانیہ میڈیکل کالج ڈاکٹر سدھیر نائک سے بات چیت
حیدرآباد ۔ 28 ۔ جولائی : ( نمائندہ خصوصی ) : حیدرآباد فرخندہ بنیاد ہندوستان بھر میں کئی ایک لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔ تقریباً 425 سال قدیم اس شہر میں فن تعمیر کی وہ شاہکار عمارتیں ہیں جنہیں دیکھ کر ملکی و غیر ملکی سیاح ، ماہرین تعمیرات ، دم بخود رہ جاتے ہیں ۔ ہمارے شہر میں جو بھی تاریخی آثار ہیں ان میں جہاں اسلامی طرز تعمیر کی جھلک واضح نظر آتی ہے وہیں ایرانی ، یوروپی اور بطور خاص ہندوستانی طرز تعمیر جھلکتی ہے دنیا بھر میں جس طرح حیدرآبادی تہذیب ، روایات و اقدار ، محبت و مروت ، مہمان نوازی ، یہاں کا رہن سہن ، پکوان مشہور ہے اسی طرح شہر کے دامن میں موجود تاریخی آثار ہندوستان کی شان میں اضافہ کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔ قلعہ گولکنڈہ ، چارمینار ، مکہ مسجد ، فلک نما پیالیس ، چومحلہ پیالیس ، سالار جنگ میوزیم ، نظامیہ طبی کالج ( چارمینار شفا خانہ ) ، آندھرا پردیش و تلنگانہ قانون ساز اسمبلی ، جوبلی ہال ، حیدرآباد میوزیم ، اسٹیٹ سنٹرل لائبریری ، رودموسیٰ کے دونوں کناروں پر واقع ریاستی ہائی کورٹ ، عثمانیہ جنرل ہاسپٹل ، غرض ایسے بے شمار تاریخی آثار ہیں جو حیدرآباد کے شاندار ماضی ، قطب شاہی و آصف جاہی حکمرانوں کی رعایا پروری ، انسانیت نوازی کی یاد دلاتے رہتے ہیں اور دنیا کو یہ بھی پیام دیتے ہیں کہ حیدرآباد ہندوستان کا وہ واحد شہر ہے جہاں گنگا جمنی تہذیب کا نظارہ کیا جاسکتا ہے ۔ ان تاریخی آثار میں عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے ۔ تقریبا 91 برسوں سے یہ تاریخی ہاسپٹل ہر روز ہزاروں بیماروں کے علاج و معالجہ میں مصروف ہے ۔ واضح رہے کہ آصف جاہی حکمرانوں بالخصوص آصف جاہ ششم نواب میر محبوب علی خاں بہادر اور آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں بہادر نے ریاست حیدرآباد دکن کو ہندوستان کی تمام دیسی ریاستوں میں سب سے ترقی یافتہ بنایا تھا اور صحت عامہ و تعلیمی شعبہ پر ان حکمرانوں نے خصوصی توجہ مرکوز کی تھی ۔ چنانچہ 1846 ء میں ریاست حیدرآباد دکن میں عوام کے علاج و معالجہ کی خاطر ایلوپتھک طریقہ علاج میں ماہر ڈاکٹروں کی تیاری کے لیے نظام میڈیکل اسکول قائم کیا جسے آج دنیا عثمانیہ میڈیکل کالج کے نام سے جانتی ہے ۔ اس میڈیکل اسکول کے لیے ٹیچنگ ہاسپٹل کی ضرورت پڑنے پر 1866 میں افضل گنج ہاسپٹل قائم کیا گیا اور پھر  1918 میں حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر کے حکم پر عثمانیہ ہاسپٹل کی تعمیر شروع ہوئی ۔ بتایا جاتا ہے کہ عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کی تعمیر 1921 میں مکمل ہوئی ۔ 26.5 ایکڑ اراضی پر محیط اس ہاسپٹل میں ابتداء میں 400-500 مریضوں کے علاج کی گنجائش تھی لیکن آج آصف جاہی حکمرانوں کی نیک نیتی کے نتیجہ میں بستروں کی تعداد 400 سے بڑھ کر 1600 ہوگئی ہے ۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ چیف منسٹر مسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے جو آصفجاہی حکمرانوں اور حیدرآبادی تہذیب کی تعریف و ستائش کرتے نہیں تھکتے اعلان کیا ہے کہ دواخانہ عثمانیہ کی قدیم عمارت بوسیدہ ہوچکی ہے چنانچہ اسے منہدم کر کے وہاں دو بلند و بالا عمارتوں پر مشتمل ہاسپٹل تعمیر کیا جائے گا ۔ چیف منسٹر کے اس اعلان کے ساتھ ہی حیدرآبادی تہذیب اور تاریخی آثار سے محبت رکھنے والوں نے ببانگ دہل چیف منسٹر کے اس مجوزہ منصوبہ کی شدید مخالفت شروع کردی ہے ۔ ان میں ڈاکٹرس ، انجینئرس ، سماجی جہد کار ، ماہرین تعلیم ، وکلاء اور عام شہری سب شامل ہیں ۔ عثمانیہ میڈیکل کالج کے قابل فخر سپوت اور حیدرآباد کی تہذیب کی نمائندہ شخصیتوں میں شامل ماہر امراض قلب ڈاکٹر سدھیر نائک نے جنہوں نے اپنے کیرئیر کا ایک بڑا عرصہ عثمانیہ جنرل ہاسپٹل میں خدمات انجام دیتے ہوئے گذارا ان کا کہنا ہے کہ چیف منسٹر کا یہ فیصلہ بالکل غلط ہے ۔ عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کا شمار ہندوستان کے انتہائی قدیم اور بڑے دواخانوں میں ہوتا ہے ۔ یہ عمارت جہاں تلنگانہ بالخصوص حیدرآباد کی شان اور اس کے وقار کی علامت ہے وہیں طبی و صحت عامہ کی خدمات میں حیدرآباد کے کردار کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے ۔ اس دواخانہ اور عثمانیہ میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ڈاکٹروں نے ملک اور بیرون ملک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ ، برطانیہ اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ملک میں عثمانیہ میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر سدھیر نائک کے مطابق حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں کے حکم پر برطانوی آرکیٹکٹ ویسنٹ جیروم ایش نے عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کا ایسا ڈیزائن تیار کیا جو طب و صحت کے لحاظ سے بالکل موزوں تھا ۔ اس ہاسپٹل کے احاطہ میں کئی ایکڑ اراضی پر افضل گارڈن قائم کیا گیا تاکہ مریضوں کو تازہ ہوا اور پر فضا ماحول مل سکے ۔ ڈاکٹر سدھیر نائک کے مطابق عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کی تعمیر میں روشنی ، ہوا کا خاص خیال رکھا گیا ۔ اس طرح کا ہاسپٹل ہندوستان کی کسی ریاست میں نہیں ہے ۔ یہ دواخانہ جہاں بیماریوں کے علاج کا مرکز ہے وہیں کئی ایک طبی دریافتوں کے لیے بھی جانا جاتا ہے ۔ مثلا مریضوں کو بے ہوش کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کلوروفام کی دریافت اور تیاری بھی عثمانیہ جنرل ہاسپٹل میں ہوئی ۔ اس کے کشادہ ، وسیع و عریض وارڈس ، بلند و بالا گنبدیں ، بڑے بڑے دالان ، کھلی راہداریاں ، سب کے سب مریضوں اور ان کے علاج کو ذہن میں رکھتے ہوئے تعمیر کئے گئے تھے اور اسی ہاسپٹل کے باعث ہی متحدہ آندھرا پردیش میں سرکاری ہاسپٹلوں کا جال پھیلا ۔ ڈاکٹر سدھیر نائک نے جنہیں اس ہاسپٹل میں کارڈیالوجی یونٹ قائم کرنے کا اعزاز حاصل ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ ہندوستان کا واحد ہاسپٹل ہے ۔ کلینکل کیر اور ٹیچنگ آرام سے کرسکتے ہیں ۔ انہوں نے پر زور انداز میں کہا ’’ آج کل ڈبوں کی طرح ہاسپٹل تعمیر کئے جارہے ہیں جہاں مریضوں کو تازہ ہوا نہیں ملتی اور نہ ہی پر فضا ماحول ‘‘ ۔ ڈاکٹر نائک کے مطابق آج عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کی جو حالت زار ہے اس کے لیے سرکاری ادارے ذمہ دار ہیں کیوں کہ اگر اس تاریخی اور خوبصورت عمارت کی مناسب انداز میں دیکھ بھال کی جاتی تو چیف منسٹر کے ذہن میں حیدرآبادی وقار کی علامتوں میں سے ایک اس علامت کو منہدم کرنے کا خیال ہی نہیں آتا ۔ ڈاکٹر سدھیر نائک جو انجمن طلبائے قدیم عثمانیہ میڈیکل کالج کے صدر نشین بھی ہیں سوال کیا کہ شہر میں چار سو سال سے زائد قدیم عمارتیں ہیں صرف عثمانیہ جنرل ہاسپٹل پر ہی نظریں کیوں ؟ ان کی چیف منسٹر سے یہی گذارش ہے کہ وہ اس خوبصورت اور طبی لحاظ سے موزوں دواخانہ کو منہدم کرنے کی بجائے اس کی تزئین نو کو یقینی بنائیں تاکہ حیدرآبادی تہذیب اور اس کے وقار و شان سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ ہونے پائے ۔۔