!مرکز کے غلام نہیں

سن رکھی باتوں پہ اب اپنا کوئی تکیہ نہیں
آدمی کتنا قریبی ہی سہی اپنا نہیں
!مرکز کے غلام نہیں
چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اپنی حکومت کی کارکردگی کی پروگریسیو رپورٹ پیش کرتے ہوئے تلنگانہ عوام سے اپیل کی کہ وہ ٹی آر ایس کو دوبارہ برسر اقتدار لانے کے لیے ووٹ دیں ۔ اپنی دوسری میعاد کے لیے انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے کے سی آر نے جس طرح کے عزم و حوصلہ کا اظہار کیا ہے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے تلنگانہ میں اپنی حکومت کو آئندہ پانچ سال کے لیے بھی برقرار رکھنے کا تہیہ کرلیا ہے ۔ سیاسی سفر میں دھوپ سہہ کر انہوں نے تلنگانہ حاصل کیا تھا اس تحریک میں سبھی شامل تھے لیکن کے سی آر ہی اس بھیڑ سے آگے نکل سکے ۔ تلنگانہ تحریک میں کسی کو کوئی راہ نہیں دی جارہی تھی لیکن کے سی آر نے خود کو سنبھل کر آگے بڑھنے کی کوشش کی کامیاب ہوئے ۔ آج ان کی حکومت کی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے وہ ووٹ کے حقدار ہونے کا ادعا کررہے ہیں ۔ بلا شبہ کے سی آر نے ابتداء میں اپنی حکمرانی کو دہلی کی غلامی سے پاک بنائے رکھنے کی کوشش کی لیکن آخری سال وہ بھی دہلی کے تابع ہوگئے ۔ بظاہر انہوں نے تلنگانہ عوام سے کہا کہ عوام دہلی کے غلام نہیں ہوں گے مگر وہ خود اس صف میں دکھائی دینے لگے ہیں ۔ یہ تو ان کے چہرہ کا فقط عکس ہے تصویر نہیں ہے ۔ ابھی وہ انتخابات کے موقع پر اس چہرہ پر کچھ رنگ چڑھاتے رہیں گے ۔ کے سی آر کو داخلی طور پر یہ اندازہ ہے کہ ان کا سیاسی گھر بھی اس مرکز کے حصار میں ہے تاہم چیف منسٹر خود کو مرکز کے دروازے کے آگے جھکاپانا نہیں چاہتے ۔ یہ اچھی بات ہے کہ تلنگانہ عوام کو پرُوقار زندگی دینے کا وہ ارادہ رکھتے ہیں ۔ تلگو عوام کی عزت نفس کا احترام کرتے ہیں ، لیکن ان کی حکومت کی پروگریسیو رپورٹ پر عوام کا ردعمل کیا ہوگا یہ تو انتخابات کے بعد ہی پتہ چلے گا ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کے بارے میں خاص تذکرہ نہیں کیا ۔ کسانوں ، دلتوں اور دیگر طبقات کے لیے ان کی حکومت نے سرکاری خزانے کھول دئیے ہیں تو یہ انتخابی سال کا تحفہ ہی ہوگا ۔ چیف منسٹر نے ریاست کے مسلمانوں کے لیے مختص بجٹ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے مسلمانوں کی بہبود کے لیے سب سے زیادہ بجٹ مختص کیا ہے جو مرکزی حکومت کی کل ہند سطح پر مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مختص بجٹ سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ اس بجٹ کی صرف تشہیر ہوتی رہی ہے ۔ ٹنڈرس کی اجرائی اور اس سے استعمال کے اعداد و شمار مختلف ہوتے ہیں ۔ عوام تو سادہ معصوم ہوتے ہیں لیکن لیڈر کو اس کی عیاری ہی لے ڈوبتی ہے ۔ وہ اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا تماشہ بن جاتا ہے ۔ کے سی آر کو ابھی کامیابی کا نشہ ہے ۔ انہوں نے عوام کی نفرت اور ناراضگی سے پیدا ہونے والی ناکامیابیوں کا منہ نہیں دیکھا ہے ۔ انہیں یہ تو پتہ ہونا چاہئے کہ سرکاری اسکیمات کے فوائد جب عوام تک پہونچتے ہیں تو ان کے ووٹ پکے ہوتے ہیں اور جب اسکیمات کے فوائد ہی نہ ملیں تو عوام اپنا ووٹ دینے کا فیصلہ ہی بدل دیتے ہیں ۔ انہوں نے سیاسی بنیاد پر عوام سے یہ اپیل کی کہ وہ ٹی آر ایس کا ساتھ دیں کیوں کہ ٹی آر ایس نے عوام کے حق میں کئی کام انجام دئیے ہیں ۔ انہوں نے اپنے کاموں کی ایک مختصر فہرست بھی پیش کی ۔ بہبودی اقدامات کے ساتھ ، پنشن میں اضافہ اور بیروزگاری دور کرنے کی ضرورت پر توجہ دی ۔ انہوں نے زونل سسٹم کی منظوری کو اپنا کارنامہ قرار دیتے ہوئے عوام کو یاد دلایا کہ یہ ایک اہم مسئلہ تھا ۔ مقامی افراد کو روزگار کے مواقع پیدا کرنا ان کی حکومت کا بڑا کارنامہ ہے ۔ چیف منسٹر کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کر کے ان پر زور دیا تھا کہ وہ روزگار میں تلنگانہ کے نوجوانوں کے لیے 95 فیصد تحفظات فراہم کریں ۔ اس طرح زونل سسٹم کے لیے صدر جمہوریہ کی منظوری واقعی کے سی آر کی کاوشوں کی مرہون منت ہے تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں مقامی نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار ملے گا ۔ کے سی آر نے اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لیئے بغیر ہی مستقبل کی جانب چھلانگ لگانے کے لیے جن قلابازیوں کا سہارا لیا ہے ۔ انہیں یہ قلابازیاں کس طرف لے جائیں گی وقت ہی بتائے گا ۔ بہر حال ٹی آر ایس قیادت نے سرکاری مشنری کو بجا طور پر کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے ، اس کا عین مظاہرہ کرتے ہوئے ایک پارٹی کو مضبوط کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی ہے ۔ عوام نے اس حکومت کا دشت بھی دیکھا ہے چمن بھی دیکھا ہے ۔ اس لیے ان کے اندر ایک عجب سی تبدیلی دیکھی جارہی ہے ۔ اگر یہ تبدیلی واقع کے سی آر کو بدلنے کا کام کرے گی تو پھر تلنگانہ کا سیاسی منظر کروٹ لے گا ۔ اور پھر دہلی کی غلامی نہ کرنے کی باتیں کرنے والے کی راہ دراز عمر مرکز کی اسیری میں کٹ جائے گی ۔ لہذا چیف منسٹر کے سی آر کو اپنی حکومت کی کارکردگی کا محاسبہ کرتے ہوئے دیانتداری کے ساتھ سوچنے کا وقت ہے ۔ ان کی نظروں میں عوام کے ووٹوں کی جتنی عظمت ہے اتنی ہی عوام کے آرزوؤں کا ادب کریں تو قوی امکان ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار حاصل کرسکیں ۔۔