مرکز کی انتقامی کارروائی سے جماعت کے قائدین محفوظ ؟

تلگودیشم قائدین کے خلاف سی بی آئی و ای ڈی کا استعمال، حیدرآباد کی قیادت تنقید کے باوجودمزے میں
محض اتفاق یا دوستی

حیدرآباد۔/30 نومبر، ( سیاست نیوز) برسراقتدار جماعتوں کی جانب سے اپنے سیاسی حریفوں کو ہراساں کرنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اور حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اکثر و بیشتر دیکھا جاتا ہے کہ تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ یا پھر مرکزی اداروں کے دھاوؤں سے مخالفین کے حوصلوں کو پست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالیہ عرصہ میں سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ جیسے اداروں کے استعمال کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ برسراقتدار پارٹی پر اپوزیشن کی جانب سے ان اداروں کے استعمال کے الزامات عائد کئے گئے۔ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کے دھاوؤں میں کس حد تک سچائی ہے اس کے قطع نظر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں تلگودیشم کی بڑھتی مخالفت اور این ڈی اے سے علحدگی کے فوری بعد آندھرا پردیش میں تلگودیشم قائدین کے خلاف سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کے ذریعہ کارروائیاں کی گئیں۔ تلگودیشم قائدین کے کاروبار کو نشانہ بنایا گیا اور ان کی آمدنی سے متعلق جانچ شروع کی گئی۔ آندھرا پردیش حکومت نے سی بی آئی کے ریاست میں بلااجازت داخلہ پر روک لگاتے ہوئے احکامات جاری کئے۔ آندھرا پردیش کے علاوہ بھی دیگر ریاستوں میں بی جے پی کے مخالفین کے ساتھ کچھ اسی طرح کا سلوک کیا گیا۔ چندرا بابو نائیڈو کی مخالف بی جے پی سرگرمیوں کا خمیازہ پارٹی قائدین کو بھگتنا پڑا لیکن بعض پارٹیاں ایسی بھی ہیں جو بی جے پی کی سخت مخالفت کے باوجود انتقامی کارروائیوں سے محفوظ ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے تلنگانہ کی انتخابی مہم میں ٹی آر ایس اور حیدرآباد کی مقامی جماعت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ دونوں پارٹیوں نے جوابی الزامات عائد کئے اور مقامی جماعت کے قائدین نے وزیر اعظم اور صدر بی جے پی کے خلاف الزام تراشی میں تمام حدود سے تجاوز کیا۔ مقامی اور قومی میڈیا میں مقامی جماعت کے قائدین کے مودی کے خلاف بیانات کو خوب اُچھالا گیا لیکن جماعت کسی بھی انتقامی کارروائی کی زد میں نہیں آئی۔ بی جے پی آخر مقامی جماعت سے کیوں ہمدردی رکھتی ہے، کیا یہ مقامی جماعت سے خوف ہے یا پھر دونوں میں میچ فکسنگ۔ مودی اور بی جے پی کے خلاف یوں تو سبھی قائدین بیان بازی کرتے ہیں لیکن سخت ترین تنقیدیں کرنے والے کس طرح مرکز کی کارروائیوں سے بچے ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان قائدین کے تمام معاملات شفاف اور شبہ سے بالاتر ہوں، اس کے باوجود مرکزی حکومت کی ہمدردیاں عوام کو سوچنے پر مجبور کررہی ہیں کہ آخر اس ہمدردی اور خاموشی کا کیا راز ہے۔حالیہ عرصہ میں فینانشیل اُمور میں مقامی جماعت کی خامیوں کے خلاف مرکزی اداروں نے کارروائی ضرور کی تھی لیکن بعد میں معاملات کو سلجھا لیا گیا جو مرکز سے دوستی کی واضح مثال ہے۔