نئی دہلی 4 مئی (سیاست ڈاٹ کام) مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کے ایس سی ؍ ایس ٹی قانون کے بارے میں حکمنامے پر التواء کا مطالبہ کیا ہے۔ اعلیٰ ترین عدالت کا کہنا ہے کہ یہ 100 فیصد اِن طبقوں کو حقوق کی فراہمی کی حامی ہے اور ان پر مظالم کرنے والوں کو سزا دینا چاہتی ہے۔ جسٹس اے کے گوئل اور جسٹس یو یو للت پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ کا فیصلہ اُس وقت منظر عام پر آیا جبکہ مرکز نے جس کی پیروی اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال کرتے ہیں، سپریم کورٹ کے اِس سلسلے میں حکمنامے پر التواء کی درخواست پیش کی۔ اُنھوں نے کہاکہ سپریم کورٹ قواعد یا رہنمایانہ خطوط اُن معاملات میں متعین نہیں کرسکتا جو خلاف قانون ہوں اور جنھیں مقننہ نے منظوری دی ہو۔ وینو گوپال نے نشاندہی کی کہ ایس سی ؍ ایس ٹی فیصلے کے نتیجے میں انسانی جانیں ضائع ہوئیں چنانچہ یہ مقدمہ وسیع تر بنچ کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔ 20 مارچ کے اپنے حکمنامے کو جائز قرار دیتے ہوئے بنچ نے کہاکہ ایس سی ؍ ایس ٹی قانون پر عدالتی فیصلے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتے وقت سپریم کورٹ نے ہر پہلو پر اور تمام سابقہ فیصلوں پر غور کیا ہے۔ بنچ نے کہاکہ وہ ایس سی ؍ ایس ٹی کے حقوق اور اُن پر مظالم کے مجرموں کو سزا دینے کی مکمل تائید میں ہے۔ مرکز نے 2 اپریل کو سپریم کورٹ میں درخواست پیش کرتے ہوئے فیصلے پر نظرثانی کی خواہش کی ہے جو انسداد مظالم برائے درج فہرست ذاتوں و قبائیل کے انسداد کے قانون 1989 ء کے خلاف ہو۔ سپریم کورٹ نے 27 اپریل کو فیصلہ سنایا تھا کہ مرکز کی درخواست نظرثانی سے واضح ہوتا ہے کہ اِس خیال کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی اور موقف اس سلسلے میں ناقابل قبول ہے۔ تحریری دستاویزات جو سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ہیں، اُن کے بارے میں اٹارنی جنرل نے کہاکہ فیصلہ قانون کی دفعات کی سختی کو کمم کردیتا ہے جس کے نتیجے میں عوام کے درمیان ہم آہنگی کی عدم موجودگی کے نتیجے میں برہمی پیدا ہوتی ہے۔ اِس لئے حکومت چاہتی ہے کہ فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ دستور ہند کی دفعہ 21 کے برعکس ہے اور اِس قانون کی دفعات کو نرم بناتا ہے۔ سپریم کورٹ نے 20 مارچ کو کہاکہ ہر موقع پر بے قصور شہریوں کو ملزم قرار دیا جارہا ہے ۔