مرکزی کابینہ کا اہم اجلاس

جنون عشق تھا کچھ اس طرح کا
جو طوفاں سے گذر جانا ہوا ہے
مرکزی کابینہ کا اہم اجلاس
مرکزی کابینہ نے نہایت ہی مستعد انداز میں تلنگانہ بل کو منظور کرنے اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی راہ اس قدر کھول دی ہے کہ اب کسی کو کسی رکاوٹ بندش کی شکایت نہ ہوگی۔ کسی بھی مشکل کو آسان کرنے کے کتنے ہی طریقے وسیلے قرینے ہوتے ہیں شرط یہ ہے کہ فریقین کو اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے۔ تلنگانہ بل جب پارلیمنٹ میں پیش ہوگا تو تمام ارکان کو بل کی منظوری کیلئے اپنے دانش کے مطابق حرکت کرنی ہوگی۔ کابینہ نے ریاست آندھرا پردیش کے چیف منسٹر کرن کمار ریڈی کی باغیانہ سرگرمیوں کا سخت نوٹ لیا ہے اور انہیں برطرف کرنے کی جانب توجہ دی ہے۔ اگر کانگریس ہائی کمان نے چیف منسٹر کو پارٹی اور حکومت سے ہٹانے کافیصلہ کیاتو یہ کام ’’چیونٹی کو بندوق سے مارنا بہادری نہیں خوف ہے‘‘ کے مترادف کہلائے گا۔ مرکزی کابینہ نے جب اسٹیٹس ری آرگنائزیشن کمیشن (ایس آر سی) کو منظوری دیدی ہے تو یہ کام بہت پہلے ہونے کا متقاضی تھا۔ ایس آر سی کو مرکزی حکومت نے ہی 1953 میں ایک ادارہ کے طور پر تشکیل دیا تھا تا کہ ریاستی سرحدوں کے از سر نو تعین کی سفارش کرسکے ۔تقریبا 2 سال کے جائزہ کے بعد 1955 میں کمیشن نے سفارش کی تھی اسٹیٹ باونڈریز کو ری آرگنائزرڈ کیا جانا چاہئے تا کہ 16 ریاستیں اور 3 مرکزی زیر انتظام علاقے قائم کی جائیں ۔ اسٹیٹس ری آرگنائزیشن کمیشن فضل علی کے مادھوا پانی کر اور ایچ این کنزرو پر مشتمل تھا۔ کمیشن کی بعض سفارشات کو اسٹیٹس ری آرگنائزیشن ایکٹ 1956 میں روبہ عمل لایا گیا۔ اس کمیشن نے تلنگانہ مسئلہ پر بھی اپنی سفارشات پیش کی تھیں لیکن بعد کے دنوں میں تلنگانہ عوام کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں 20 فبروری 1956 کو دونوں علاقوں تلنگانہ اور آندھرا کے قائدین میں ہوئے شریفانہ معاہدہ کے وعدوں کو ایماندارانہ طور پر روبہ عمل لانے میں ناکامی کے بعد ہی سے حالات تبدیل ہوگئے تھے اس لئے آج تلنگانہ کی علحدگی کیلئے جو تحریک شروع کی گئی اس کو کامیابی ملنے کیلئے پارلیمنٹ کی منطوری کا انتظار ہے ۔ تلنگانہ کے عوام نے اپنے حقوق کے حصول کی سمت 1962 ،1972 اور 2000 میں کئی تحریکیں شروع کی تھیں لیکن تلنگانہ ریاست کی تحریک کو حالیہ برسوں میں جس طرح تقویت حاصل ہوئی ہے اس کے پیش نظر تلنگانہ عوام کو ان کی ریاست ملنے کو یقینی سمجھا جارہا ہے ۔ کانگریس اپنے حصہ کے طور پر تلنگانہ کو یقینی بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے تو بی جے پی نے بھی پارلیمنٹ میں بل کی تائید کا وعدہ کیا ہے

اگر آئندہ چند دنوں میں حالات موافق تلنگانہ ہوتے ہیں تو بلا شبہ ملک کی 29 ویںریاست کے طور پر تلنگانہ کا جنم ہوگا ۔ حکمرانی کی اہلیت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ سیدھے راستے پر سب کو ساتھ لے کر چلے۔ گڈگورننس کا مظاہرہ اگر بہت پہلے ہوتا تو تلنگانہ میں عوام الناس کی بڑی تعداد کی جانیں ضائع نہیں ہوتیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کانگریس کو ذاتی طور پر فائدے کی تلاش ہے۔ تلنگانہ کے حق میں اگرکانگریس علحدہ ریاست کی حامی ہے تو ادھر دوسری طرف آندھرائی کانگریس بھی ہیں جو ہائی کمان کو عزیز ہیں۔ چیف منسٹر کرن کمار ریڈی بھی ہائی کمان کے عزیز کہلائے جاتے ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی سے آندھرا میں پارٹی کے خلاف کیا پیام جائے گا اس کا اندازہ بہت جلد ہوگا کیوں کہ تلنگانہ بل کی منظوری کی خبروں نے سیما آندھرا کے ارکان پارلیمنٹ کو مشتعل کردیا ہے۔ شمال ساحلی آندھرا خطہ سے تعلق رکھنے والی مختلف سیاسی پارٹیوں کے ارکان نے پارلیمنٹ میں بل کی منظوری کو روکنے کیلئے ہر ممکنہ کوشش کی قسم کھائی ہے۔ انا کاپلی سبم ہری نے مرکزی کابینہ کے اجلاس پر ریمارک کرتے ہوئے اسے کانگریس کی بدترین چال سے تعبیر کیا کیونکہ مرکزی کابینہ کا اجلاس عام طور پر جمعرات کو منعقد ہوتا ہے اس مرتبہ جمعہ کو اجلاس طلب کیا گیا اور اس کیلئے شام 11 بجکر 30 منٹ کا وقت دیا گیا تا کہ کوئی بھی کابینہ کے فیصلہ کے خلاف عدالتوں سے رجوع نہ ہوسکے ۔ مرکزی کابینہ نے بھی تلنگانہ بل کو در پیش رکاوٹوں کا اندازہ کر کے ہی اس بل کو سب سے پہلے راجیہ سبھا میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا جہاں بل کی بہت ہی کم مخالفت کی جائے گی اس کے بعد یہ بل لوک سبھا میں پیش ہوگا لیکن یہاں بل کی منظوری کو یقینی بنانے میں حکومت کامیاب ہوسکے گی یہ ایوان کی کیفیت پر منحصر ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ لوک سبھا میں نظم و ضبط کی برقراری کے ساتھ کارروائی کو بہر حال چلانے کی کوشش کرے تا کہ تلنگانہ کے بشمول تمام اہم بلوں کی منظوری کو یقینی بنایا جاسکے۔ تلنگانہ کی مخالفت کرنے والوں نے بھی ایک الگ حکمت عملی تیار کرلی ہے اس لئے یہاں کانگریس ہائی کمان کی تیاری اور مخالف تلنگانہ گروپ کی حکمت عملی کے درمیان کس کو کامیابی ملے گی یہ اہمیت کی حامل ہوگی ، کچھ ناسمجھ آندھرائی سیاستداں اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ وہ ہی کامیاب ہوں گے ۔

راجیہ سبھا انتخابات اور علاقائی پارٹیاں

راجیہ سبھا انتخابات میں علاقائی پارٹیوں کو مسلسل ہونے والی کامیابی سے آئندہ آنے والے لوک سبھا انتخابات کیلئے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ قومی پارٹیوں کو مرکز میں اقتدار تک پہونچنے کیلئے علاقائی طاقتور پارٹیوں کا سہارا لینا پڑے گا۔ جمعہ کے دن راجیہ سبھا کی 18 نشستوں کیلئے منعقدہ انتخابات کے نتائج ملے جلے رہے۔ کانگریس اور اس کے نامزد ارکان کو 7 نشستیں ملی اور ماباقی نشستوں یعنی 11 راجیہ سبھا نشستوں پر علاقائی پارٹیوں کے ارکان منتخب ہوئے۔ راجیہ سبھا میں 250 ارکان ہیں جن میں سے 12 ارکان کو صدر جمہوریہ کی جانب سے نامزد کیا جاتا ہے ماباقی ارکان کو 6 سال کی مدت کیلئے ریاستی اسمبلیوں کے ارکان منتخب کرتے ہیں۔ آندھرا پردیش سے بھی 6ارکان کا انتخاب عمل میں آیا جن میں کانگریس کو 3 نشستوں پر کامیابی ملی تو علاقائی پارٹی تلگودیشم کو 2 پر اور تلنگانہ کی ٹی آر ایس نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔ یہ کامیابی متوقع ہی تھی لیکن مغربی بنگال میں جہاں ترنمول کانگریس نے پانچ نشستوں کے منجملہ چار پر کامیابی حاصل کی یہ علاقائی پارٹی کیلئے بہت بڑی جیت ہے۔ مغربی بنگال راجیہ سبھا انتخابات کے تعلق سے یہ کہا جارہا ہے کہ یہاں کراس ووٹنگ ہوئی اور ارکان اسمبلی کے اغواء کرلینے کے الزامات عائد کئے گئے۔ ممتابنرجی کی پسند کے مطابق اداکارمتھن چکرورتی، صنعت کار کے ڈی سنگھ اور نامور پینٹرجوگن چودھری منتخب ہوئے ہیں۔ البتہ ترنمول کانگریس نے ایوان بالا میں اپنے چوتھے امیدوار کو بھیجنے میں بھی کامیابی حاصل کرلی ہے بہر حال راجیہ سبھا کے انتخابات نے لوک سبھا میں علاقائی پارٹیوں کا غلبہ ہونے کا اشارہ دیدیا ہے تو ایک معلق پارلیمنٹ کے وجود میں آنے کا امکان قوی ہوگیا ہے۔