مرکزی حکومت اور تلنگانہ

ایسا بگڑا ہے وقت کا یہ مزاج
آج ہر گل ہے خار سمجھے نا
مرکزی حکومت اور تلنگانہ
سیاسی قیادت اور اس کے دعویدار عوام کو راحت پہونچانے کے نام پر پریشانیاں دیں تو مسئلہ کا حل کون نکالے گا۔ تلنگانہ کے قیام کے وقت جو وعدے کئے گئے تھے اس پر مرکز نے آنکھ بند کرلی ہے ۔ بجٹ میں تلنگانہ کو کچھ نہیں دیا گیا ۔ اس نئی ریاست کے تقاضے کئی ہیں ۔ مہنگائی نے بھی اس نئی ریاست کے مسائل میں اضافہ کردیا ہے ۔ اس بھیانک مہنگائی کی ذمہ دار ملک کی وزارت فینانس ہوتی ہے جو چھپ کر خاموشی سے اپنا کام کرجاتی ہے ۔ وزیر فینانس جو انتخاب میں شکست کے باوجود مرکز میں اقتدار وزارت کے مزے لوٹ رہے ہیں پسماندہ ریاست کے غریب عوام کی پریشانیوں سے واقف نہیں ہیں۔ تلنگانہ کی ٹی آر ایس حکومت کو اس لئے بھی مرکز سے کچھ ہمدردی حاصل نہیں ہے کیوں کہ اس نے انتخابات میں بی جے پی سے اتحاد نہیں کیا تھا ۔ اقتدار کے حصول کی خاطر تلگودیشم پارٹی نے بی جے پی سے اتحاد کرکے آندھراپردیش میں حکومت بنالی ہے تو اس ریاست کو مرکزی بجٹ میں زیادہ سے زیادہ فنڈس ، پراجکٹس دیئے گئے ہیں ۔ نئی ریاست تلنگانہ کو اپنی پسماندگی دور کرنیکی فکر ہے تو آندھراپردیش کو نیا دارالحکومت بنانے اور دیگر تعمیری کام انجام دینے ہیں کیوں کہ تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں انفراسٹرکچر سہولتیں ہی سارے تلنگانہ کی معیشت کو سنبھالے ہوئے ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ حیدرآباد میں بہتر میڈیکل سہولتیں ہیں ، یہاں بیرون ملک سے بھی مریض اپے علاج کے لئے آتے ہیں لیکن غریبوں کیلئے کام کرنے والے سرکاری دواخانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ ماضی میں دواخانہ عثمانیہ اپنی کارکردگی اور علاج معالجہ میں ڈاکٹروں کی مہارت و خدمات کے لئے مشہور تھا اب اس دواخانہ کو سڑی گلی حالت میں چھوڑ دیا گیا ہے ۔ حیدرآباد کو بھی ترقی حاصل ہونے سارے تلنگانہ کے ٹاؤنس اور دیہی علاقوں کی حالت بھی حیدرآباد جیسی ہونے کا تصور نہیں کیا جاسکتا جبکہ آندھراپردیش میں ہر ٹاؤن تلنگانہ کے ٹاؤن سے بہتر ہے ۔ آندھرا کے عوام کی معاشی و تعلیمی ترقی تلنگانہ کے عوام سے زیادہ بہتر ہے۔ اس لئے تلنگانہ کی نظام آباد ایم پی کے کویتا نے مرکز کے بجٹ کو ہندوستان کے نوجوانوں اور ملک کی نئی 29 ویں ریاست تلنگانہ کے لئے بے فیض قرار دیا ہے ۔ مرکز کو ایک بہترین وفاقی رابطہ قائم کرنا چاہئے تھا لیکن اس نے تلنگانہ کے معاملہ میں واقعی تنگ نظری سے کام لیا ہے ۔ وفاقی رابطہ کاری مرکز کیلئے اہم ہوتی ہے مگر بجٹ میں اس کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔ ملک کی تمام ریاستوں کے ساتھ مرکز کی وفاقی رابطہ کاری میں فرق پیدا ہوتا ہے تو یہ مستقبل کے حالات کے لئے مناسب نہیں ۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ اور ان کے ارکان پارلیمنٹ نے اقتدار کا حلف لینے کے بعد وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزراء کو تلنگانہ کی ضروریات اور تقاضوں سے متعلق ایک فہرست پیش کی تھی جس کی مدد سے تلنگانہ کی ترقی میں مرکز کو اپنا حصہ ادا کرنا تھا مگر مرکزی بجٹ نے تلنگانہ کو مایوس کردیا ہے ۔ چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ کی وزیراعظم سے کی گئی نمائندگی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ ریلوے بجٹ کے بعد عام بجٹ سے بھی تلنگانہ کو صدمہ ہوا ہے تو یہاں کے عوام کو اپنے ووٹ کے فیصلہ کا خمیازہ بھگتنے کیلئے چھوڑ دیاگیا ہے ۔ مرکز نے ٹیکس راحتوں کے بشمول متعدد مالیاتی اقدامات کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاکہ نئی ریاست میں صنعت کاری کے نظام کو وسعت و فروغ دیا جاسکے ۔ اس کے برعکس اے پی ری آرگنائزیشن قانون میں آندھراپردیش کی حکومت سے کئے گئے بعض وعدوں کو پورا کیا گیا ہے لیکن تلنگانہ کو قبائیلی یونیورسٹی دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جو پورا نہیں ہوا ۔ اس کے علاوہ تلنگانہ میں نیا ریاپڈ ریل روڈ سے مربوط بڑا پراجکٹ دینے کااعلان کیا گیا تھا اسے بھی پورا نہیں کیا گیا ۔ اس کے حصہ میں صرف ایک ہارٹیکلچر یونیورسٹی آئی ہے ۔ مرکز نے پوری بے رخی کے ساتھ ٹی آر ایس کے مطالبات کو نظرانداز کردیا ہے لیکن تلنگانہ حکومت کو اس وقتی اقدام سے مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ اپنے حق کے حصول کیلئے مرکز سے بار بار نمائندگی کی جائے۔ مرکزی حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ریاستوں کو ہر ممکنہ مالیاتی تعاون کرے ۔ وزیر فینانس نے بھی اپنے بجٹ میں مالیاتی تعاون کا وعدہ کیا ہے تو اس وعدہ کی تکمیل کے لئے ان پر دباؤ برقرار رکھا جائے تو کامیابی ملے گی ۔ حیدرآباد میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ کس کو کنٹرول کرنا ہے یہ مرکز اور ریاست کے درمیان پیدا ہونے والا تنازعہ وزیراعظم نریندر مودی اور کے سی آر نظم و نسق میں تلخیاں پیدا کررہا ہے ۔ حیدرآباد جو انفارمیشن ٹکنالوجی کے شعبہ میں ملک کا اہم مرکز بننے جارہا ہے تو یہاں لا اینڈ آرڈر کاکنٹرول مرکز نے گورنر کو تفویض کیا ہے اس لئے مرکزی حکومت غیرمعلنہ طورپر حیدرآباد کو مرکزی زیرانتظام علاقہ متصور کررہی ہے ۔ حیدرآباد کے وسائل کو بھی دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی باتیں بھی تلنگانہ عوام کے لئے ہرگز ناقابل قبول ہوں گے ۔ اس لئے مرکز کو تلنگانہ کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ ریاستوں کے ساتھ ہمدردی کا راستہ بدلنے کا سلسلہ نیا نہیں ہے ۔ مگر تلنگانہ ایک نئی ریاست ہے اس کے ساتھ سیاسی تصب پسندی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو یہ مرکز کی سب سے بڑی بددیانتی کہلاے گی ۔
اسرائیلی جارحیت پر لگام ضروری
اسرائیل پر عالمی دباؤ ڈالتے ہوئے فلسطین میں جاری خون ریز کارروائیوں کو فوری روک دینا ضروری ہے ۔ منگل سے فلسطینی علاقہ میں بمباری ہورہی ہے۔ وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے غزہ پٹی کو تہس نہس کردینے تک بمباری کرنے کا عہد کیا ہے ۔ عالمی سطح پر جو طاقتیں مسلم ملکوں میں جانبدارانہ سوچ کے ساتھ مداخلت کرتے ہیں وہ اسرائیل کی جارحیت پر چشم پوشی اختیار کرتی ہیں۔ امریکہ نے غزہ پر اسرائیلی کارروائی کی مدافعت کرکے پھر ایک بار اپنے مکروہ سوچ کا اظہار کردیا ہے ۔ تنظیم اسلامی کانفرنس نے اپنے بند کمروں کے اجلاس میں اسرائیلی بربریت کو روکنے پر زور دیا جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ تمام مسلم دنیا کی نمائندگی کرنے والی او آئی سی کو فوری سخت قدم اٹھاکر اسرائیل کو خاموش کرنے اور فلسطین میں امن کی بحالی پر کوشش کی جاتی لیکن او آئی سی کا رول بھی عالمی آئینہ کے سامنے کھڑے رہے کر اداکاری کرنے سے زیادہ کچھ نہیں معلوم ہوتا ۔ حماس کی جانب سے راکٹ حملوں کے جواب میں اسرائیل ، فلسطین کے معصوم بچوں ، خواتین سمیت کئی افراد کو نشانہ بنارہا ہے ۔حماس کے راکٹ حملوں سے اسرائیل کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن اس نے غزہ پر بمباری کرکے اب تک 103 فلسطینیوں کو ہلاک کردیا ۔ حماس اور یہودی طاقت کے درمیان یہ مسلح تصادم مزید بھڑک جائے تو مشرق وسطیٰ میں پھر ایک بار امن کے حالات نازک رُخ اختیار کرجائیں گے ۔ فلسطینیوں کی زندگیوں کی حفاظت کو نظرانداز کرکے عالمی طاقتیں اسرائیل پر صرف دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہی ہیں ۔ اسرائیل کے خلاف سخت قدم اٹھانے سے گریز کرنے کا مطلب عالمی طاقتوں کو یہودی لابی کو کھلی چھوٹ دینا ہے ۔یہ ساری دنیا جانتی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے حالات خطرناک حالات کی نشاندہی کررہے ہیں ۔ یہ علاقہ ایک اور مکمل جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی اسرائیل کو امن کو ترجیح دینے کا مشورہ دیا ہے ۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کسی مشورہ سے باز آنے والا نہیں ہے ۔ غزہ کی صورتحال کو تباہی کے دہانے پر پہونچنے سے روکنے کیلئے عالمی طاقتوں کو فوری اسرائیل پر لگام کسنا ہوگا۔