چھٹ گئے حالات کے بادل تو دیکھا جائے گا
وقت سے پہلے اندھیرے میں نہ جاؤ چپ رہو
مرکزی حکومت اور تلنگانہ
تلنگانہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے دورہ دہلی اور عاجلانہ انتخابات کے تعلق سے ہونے والی قیاس آرائیوں کے درمیان مرکز نے مثبت رویہ اختیار کرتے ہوئے تلنگانہ کو مکمل مالیاتی حمایت کرنے کا تیقن دیا ہے تو یہ چیف منسٹر کے سی آر کے لیے سیاسی طرفداری کا بڑا نہ سہی سیاسی انعام ضرور ہے ۔ مرکز سے قربت اختیار کرتے ہوئے کے سی آر نے مودی حکومت کی سرپرستی میں اپنے دوسرے میعاد کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے ۔ دہلی کا متواتر دورہ کرنے والے کے سی آر نے عوام کی جانب سے ادا کردہ ٹیکس کی رقومات کا زیادہ حصہ اپنے سفری اخراجات پر لگایا ہے ۔ ایسے میں مرکز کا یہ فرض بن گیا ہے کہ وہ کے سی آر کی مالیاتی اور اخلاقی تائید کرے ۔ کے سی آر کو اپنی ریاست میں کئے گئے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے مرکز کی مالی اعانت ضروری ہے ۔ اس لیے انہوں نے مرکز سے کئے گئے اپنے مطالبات کو حق بجانب متصور کر کے وزیراعظم کے حضور میں یہ عرض گذار کردیا ہے کہ وہ ریاست تلنگانہ میں عاجلانہ انتخابات کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ ان کی پریشانی یہ ہے کہ ٹی آر ایس کے امکانات کو کم کرنے والی اپوزیشن کانگریس نے اپنا پلڑا بھاری بنانے کے لیے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔ کانگریس کو انتخابی فوائد حاصل کرنے سے روکنے کے لیے ہی وہ اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام سے ووٹ حاصل کرنے ان کے درمیان پہونچنے کی کوئی عبوری صورت پیدا کرلیں گے ۔ چیف منسٹر نے مرکز سے نئے زونل سسٹم کی منظوری کی ترغیب دینے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ۔ یہ ان کے لیے انتخابات سے قبل اہم کامیابی ہے ۔ اس طرح کے سی آر نے اپنے منصوبہ کے مطابق عاجلانہ انتخابات کی راہ ہموار کرنے کا مرحلہ پورا کرلیا ہے تو یقینا تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات بھی دیگر ریاستوں جیسے مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے ساتھ اس سال کے اواخر میں انتخابات کروائے جائیں گے ۔ ظاہر بات ہے انتخابات کے لیے فنڈس ضروری ہوتے ہیں اور یہ فنڈس جب مرکز سے ملنے کی امید زیادہ قوی ہوتی ہے تو پھر ریاستی حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کو دوبارہ اقتدار پر آنے کے لیے آدھی کامیابی ملتی نظر آئے گی ۔ چیف منسٹر نے وزیراعظم نریندر مودی سے اپنی حالیہ ملاقاتوں کے ذریعہ انہیں ریاست تلنگانہ کی ضروریات اور تقاضوں سے واقف کروایا ہے ۔ خاص کر ان کا حالیہ دورہ دہلی ایک خاص تبدیلی کا اشارہ دے رہا ہے اور یہ تبدیلی ممکن ہے کہ عام انتخابات یعنی لوک سبھا انتخابات کے لیے بی جے پی اور ٹی آر ایس میں وزارتی طور پر مفاہمت ہوئی ہے ۔ ایک ماہ میں وزیراعظم مودی سے کے سی آر کی یہ دوسری ملاقات اور وزیراعظم کا اثباتی ردعمل ٹی آر ایس ، بی جے پی کی دوستی کو تقویت بخشتا ہے ۔ جب کوئی سیاسی دوست بن جائے تو اس دوستی کا تقاضہ پورا کرنا فطری امر ہے ۔ لہذا وزیراعظم مودی کے سامنے چیف منسٹر کے سی آر نے ریاست کو حاصل سالانہ قرض لینے کی حد میں اضافہ کی خواہش کی اور مرکز اپنے اس رفیق ساجھے دار کی خواہش کو نظر انداز کر دے گا ، یہ ہو نہیں سکتا ۔ کے سی آر نے ریاست کی اندرون مجموعی پیداوار کا 0.50 فیصد اضافہ حصہ تلنگانہ کے لیے مختص کرنے کا مطالبہ کیا ہے اگرچیکہ سالانہ قرض کے حصول کی حد میں اضافہ کے لیے 14 ویں فینانس کمیشن نے بھی سفارش کی ہے ۔ فینانس کمیشن کی سفارشات کے مطابق ہی ریاستوں کو جی ایس ڈی بی کا 3.5 فیصد قرض دیا جانا ہے لیکن اس میں اضافہ کے لیے کے سی آر کا مطالبہ مرکز کے نزدیک فی الحال ناقابل قبول نہیں ہوگا ۔ انتخابات سے قبل ریاست تلنگانہ کو مرکز کی جانب سے غیر معمولی دست تعاون حاصل ہوتا ہے تو پھر عاجلانہ انتخابات کروانے اور انتخابی مہم کے لیے فنڈس خرچ کرنے کے لیے ٹی آر ایس کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی جہاں تک کانگریس کا سوال ہے وہ اس وقت مختلف مسائل سے دوچار ہے ۔ ان مسائل میں سے دو مسائل تو ایسے ہیں جن کی یکسوئی کے بغیر وہ انتخابات میں کامیابی کا یقین نہیں کرسکتی ۔ ایک تو فنڈس کی کمی کو دور کرنا ضروری ہے ۔ دوسرا عاجلانہ انتخابات کی تیاریاں کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ سرگرم رہنا ہوگا ۔ کانگریس بی جے پی کے خلاف مورچہ بندی میں ہنوز ناکام ہے ۔ اب اسے ریاست تلنگانہ میں بی جے پی ۔ ٹی آر ایس اتحاد کا سامنا کرنے میں شدید پریشانی لاحق ہوگی ۔ بی جے پی نے ملک کی ہر ریاست میں اپنے لیے حلیفوں کا بندوبست کرلیا ہے تو پھر تلنگانہ میں ٹی آر ایس جیسی پارٹی کو حلیف بنانے والی بی جے پی کانگریس کے امکانات کو دھکہ پہونچائے گی ۔