مرکزی بجٹ
مرکز کی این ڈی اے حکومت نے اپنی معیاد کا عملا آخری مکمل بجٹ آج پارلینٹ میں پیش کردیا ۔ اس بجٹ کو اس لئے آخری مکمل بجٹ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اگر لوک سبھا انتخابات شیڈول کے مطابق ہوتے ہیں تو آئندہ سال حکومت کو علی الحساب بجٹ ہی پیش کرنا ہوگا اور نئی تشکیل پانے والی حکومت مکمل بجٹ پیش کریگی ۔ اس اعتبار سے حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے وہ ایک طرح سے اس کی ترجیحات کے مطابق ہے اور اس بجٹ کو دیکھتے ہوئے یہ امکانات مزید تقویت پاتے ہیں کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات قبل از وقت ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اس بجٹ میں زرعی شعبہ کو زیادہ ترجیح دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس کے علاوہ انفرا اسٹرکچر کی تیاری پر بھی حکومت نے توجہ دینے کا ادعا کیا ہے لیکن بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو یہ بجٹ کسی سمت سے عاری قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اس میںکئی شعبہ ایسے ہیں جن کیلئے حکومت نے کوئی خاص اقدامات نہیں کئے ہیں۔ اس بجٹ میں اقلیتی بجٹ میں معمولی سا اضافہ کیا گیا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کے وزیر اقلیتی امور اس کو ریکارڈ اضافہ قرار دے رہے ہیں۔ بجٹ میں اقلیتوں کیلئے جو رقومات بڑھائی گئی ہیں وہ انتہائی ناکافی ہیں اور اس سے حکومت کے سب کا ساتھ سب کا وکاس نعرہ کی قلعی کھل گئی ہے ۔ بجٹ کے ذریعہ اقلیتوں کی فلاح و بہبودکی اسکیمات کو آگے بڑھانے کا حکومت کے پاس ایک بہترین موقع تھا ۔ حکومت کیلئے اقلیتوں کو با اختیار بنانے کی اسکیمات کیلئے فنڈز فراہم کرنا ضروری تھا تاہم اس کیلئے حکومت نے انتہائی تنگ دلی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بجٹ کی پیشکشی کے دوران مختلف تجاویز پر میز تھپتھپاتے ہوئے ستائش کی تھی ۔ ان کا بعد میں رد عمل بھی یہ تھا کہ یہ ایک نئے ہندوستان کے ویژن کو مستحکم کرنے والا بجٹ ہے ۔ تاہم انہوں نے یہ تشریح نہیں کی کہ ان کے خیال میں نیا ہندوستان کیا ہوگا ؟ ۔ کیا نیا ہندوستان وہ ہوگا جس میں اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ جاری رہے گا ؟ ۔ کیا اقلیتوں کیلئے بجٹ میں محض چند سو کروڑ روپئے کے اضافہ کے ساتھ نیا ہندوستان بن پائیگا ؟ ۔ حکومت کو پوری فراخدلی کے ساتھ اقلیتی بہبود پر کام کرنا چاہئے تھا جو اس نے نہیں کیا ہے ۔
اس کے علاوہ وزیر فینانس نے انکم ٹیکس کی استثنائی حد میں کوئی اضافہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے مڈل کلاس طبقہ کو ایک بار پھر مایوس کیا ہے ۔ تنخواہ یافتہ طبقہ کیلئے حالانکہ 40,000 روپئے کی چھوٹ کا نیا طریقہ ضرورپیش کیا گیا ہے لیکن اس سے شخصی انکم ٹیکس استثنی کی حد پر کوئی خاص اثر نہیں ہوگا ۔ حکومت کا دعوی ہے کہ اس بجٹ کے ذریعہ نہ صرف کاروبار میں آسانی پر توجہ دی گئی ہے بلکہ معیار زندگی کو بھی بہتر بنانے پر توجہ دی گئی ہے ۔ حکومت کو اس بات کی وضاحت کرنا ہوگا کہ عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے واقعی اس بجٹ میں کیا کچھ کیا گیا ہے ۔ بحیثیت مجموعی جائزہ سے تو پتہ چلتا ہے کہ بجٹ کے ذریعہ مڈل کلاس اور کم آمدنی والے طبقات کو کوئی راحت نہیں ملے گی اور نہ ہی اس کے نتیجہ میں روزگار فراہمی کیلئے کوئی آسانی پیدا ہوگی ۔ روزگار کی عدم فراہم ہندوستان کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے اور اس سے لاکھوں نوجوان متاثر ہو رہے ہیں ۔ حکومت نے بجٹ میں ایسی کوئی سمت کا تعین نہیں کیا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی اسکیم متعارف کی ہے جس کے ذریعہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں کوئی سہولت ہو۔ بجٹ میں تاہم تعلیم اور انفرا اسٹرکچر شعبہ کیلئے زیادہ رقومات فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اضافی بجٹ کا بہتر اور درست استعمال ہو جس کے ذریعہ ان اہم شعبہ جات کو بہتر بنایا جاسکے ۔ خاص طور پر تعلیم کے شعبہ کو موثر اور سہولت بخش بنانے کیلئے پوری توجہ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر بجٹ میں رقومات کا فراہم کرنا زیادہ ثمر آور ثابت نہیں ہوسکتا ۔
اس بجٹ کے ذریعہ حکومت نے پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کے رجحان کو قابو میں کرنے کیلئے بھی کچھ بھی کرنے سے گریز کیا ہے ۔ حکومت پٹرولیم اشیا پر نت نئے محاصل عائد کرتے ہوئے عوام پر ہی بوجھ عائد کرتی جا رہی ہے ۔ بین الاقوامی مارکٹو ںمیں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے عوام کو فائدے ہونے کی بجائے سرکاری خزانہ میں اضافہ کا موجب ہو رہے ہیں۔ حکومت ان پر محاصل کم کرتے ہوئے عوام کو راحت پہونچاسکتی تھی لیکن اس نے ایسا کرنے سے گریز کیا ۔ عوام کو پھر مہنگائی کی مار سہنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے ۔ مڈل کلاس طبقہ کو روزمرہ کے معمولات میں راحت پہونچانے کیلئے بھی حکومت نے بجٹ میںکوئی اقدامات نہیں کئے ہیں۔ بحیثیت مجموعی نریندر مودی زیر قیادت حکومت کا آخری مکمل بجٹ عوام کی توقعات اور ان کی امیدوں کے مطابق نہیں رہا ہے اور اس سے مایوسی ہی ہاتھ آئی ہے ۔