مرکزی بجٹ افسوسناک

ہندوستان دھیرے دھیرے قومی قیادت کی صلاحیتوں سے محروم سیاستدانوں کا گڑھ بنتا جارہا ہے۔ قومی قیادت کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ سیاستداں صرف ہندوستان کی بھلائی کی فکر صحیح کے ساتھ کام کرتا ہے۔ اپنے ملک کے لیے کیا چیز اچھی ہے کیا چیز خراب ہے اس کا اندازہ کرتے ہوئے فیصلہ سازی کے عمل کو یقینی بناتا ہے۔ اب سیاستدانوں کی فکر کا محور اپنی پارٹی کی برتری اور مفادات پر مرکوز ہونے لگا ہے اس لیے مرکز کی برسر اقتدار بی جے پی پارٹی کے قائدین نے اپنی کارکردگی کے ذریعہ قوم پرستی کی جھوٹی تشہیر کے ساتھ مفاد پرستی کی خفیہ اسکیموں کو پردے پر لانے کا عمل شروع کیا ہے۔ مرکزی بجٹ 2017-18ء کی پیشکشی بھی ایک قوم پرستی سے زیادہ مفاد پرستی کے آئینہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مرکزی وزیر فینانس ارون جیٹلی نے اپنا بجٹ پیش کرکے قومی اقدار اور سیاسی اعتبار کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ یہ بجٹ اس وقت پیش کیا گیا جب لوک سبھا کے سینئر ترین رکن پارلیمنٹ جناب ای احمد کا ایوان کے اندر قلب پر حملے کے بعد اسپتال میں  انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کی خبر کو بجٹ کی پیشکشی تک مخفی رکھا گیا۔ آج سارا ملک اس بات کا ماتم کررہا ہے کہ مرکزی قیادت نے اپنے ہی سینئر رکن کی میت پر بجٹ کی پیشکشی کو ترجیح دی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پارلیمانی اقدار اور جمہوری اصولوں کو ملحوظ رکھ کر بجٹ کی پیشکشی کو ایک دن کے لیے موخر کیا جاتا۔ مرکز کی بی جے پی زیر قیادت حکومت نے یہ ثابت کردیا کہ وہ ہندوستانی روایات اور اخلاقی اقدار سے بہت دور ہے۔ چیف منسٹر کیرالا نیرائی وجین اور کانگریس لیڈر ملکارجن کھرگے نے ای احمد کے انتقال کے باوجود بجٹ کی پیشکشی کو غیر مناسب اور افسوسناک قرار دیا۔ یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ ایک متوفی رکن کے ساتھ بے حرمتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ وہی پارلیمانی عمارت ہے جہاں لوک سبھا میں ایوان کے اندر اس کے سینئر رکن قلب پر حملے سے گرپڑے تھے اور بجٹ بھی اس عمارت میں ان کی موت کے چند گھنٹوں کے اندر ہی پیش کیا گیا۔ یہ عمل بلاشبہ تمام ارکان پارلیمنٹ اور انسانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچا یا جس کی تلافی ممکن نہیں۔مرکزی حکومت اور اس کے ارکان کی حرکت کو سخت ناپسند کیا جارہا ہے۔ قوم کے جمہوری ضمیر کی روح کو ٹھیس پہونچاکر وزیر فینانس ارون جیٹلی نے اپنا غیر موثر اور ناکام بجٹ پیش کیا۔ اس بجٹ کو حکومت کی نااہلی کا مظہر بھی کہا جارہا ہے۔ 78 سالہ انڈین یونین مسلم لیگ کے سینئر رکن کا انتقال ہوا۔ اس عظیم رکن پارلیمنٹ کے احترام میں مرکزی حکومت نے کوئی انسانی ہمدردی نہیں دکھائی۔ بجٹ کی پیشکشی کو اپنی حکومت کی شان سمجھنے والی بی جے پی قیادت کے تعلق سے قوم کو یہ سوچنے کا لمحہ نصیب ہوا ہے کہ جو قیادت پارلیمانی تہذیب و اقدار کے علاوہ قومی اقدار کو پامال کرنے کے درپے آسکتی ہے، اس ملک کے اندر آنے والے دنوں میں قیادت و انسانیت کا بڑا خلا پیدا ہوگا۔ پہلی مرتبہ عام بجٹ کے ساتھ ریلوے بجٹ کو ملاکر پیش کیا گیا۔ بجٹ سراسر متوسط اور تنخواہ یاب طبقہ کے لیے ایک بوجھ ہے۔جو لوگ محنت کرکے اپنی تنخواہ حاصل کرتے ہیں انہیں ٹیکسوں کے جال میں پھانسا گیا ہے جو لوگ غیر معلنہ آمدنی رکھتے ہیں بجٹ کے سہارے ٹیکس سے بچکر فرار ہونے کے کئی راستے ایجاد کرلیتے ہیں۔ حکومت نے ایسی کوئی اسکیم کا اعلان نہیں کیا کہ جو لوگ اپنی زیادہ سے زیادہ آمدنی کو پوشیدہ رکھتے ہیں انہیں کس طرح بے نقاب کرے گی۔ جو لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے ان پر کس طرح جرمانے عائد کئے جائیں گے۔ ارون جیٹلی کے اس نام نہاد بجٹ کے بہترین عنصر سے متوسط طبقہ کے افراد کو کوئی فائدہ نہیں پہونچے گا۔ سینئر سٹیزنس کے لیے بھی کوئی راحت نہیں دی گئی۔ نوٹ بندی کے بعد کی ہندوستانی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے جس طرح کے بجٹ کی توقع کی جارہی ہے تو اس کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ سالانہ 1.5 کروڑ روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی بات خلائی کرتب بازی کے سوا کچھ نہیں۔ حکومت نے 2.5 سے 5 لاکھ روپئے کی آمدنی کے ٹیکس لفٹ کیا ہے لیکن دیگر مدات کے ذریعہ ان پر ٹیکس کے بوجھ لاد دیئے ہیں۔ سرکاری خزانہ پر پڑنے والے مالیاتی بوجھ اور خسارہ کو کم کرنے کے لیے بجٹ میں جو راستے دکھائے گئے ہیں وہ بھی چیلنجس سے خالی نہیں ۔ اس مرتبہ مالیاتی خسارہ 3.2 فیصد کے ساتھ وزیر فینانس ارون جیٹلی نے کارپوریٹ شعبہ کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کیا ہے۔