مراٹھا تحفظات

کوششِ درد کارگر نہ ہوئی
دل بھر آیا پر آنکھ تر نہ ہوئی
مراٹھا تحفظات
مہاراشٹرا میں تحفظات کے لئے احتجاج نے شدت اختیار کرلی ہے اور یہ دیویندر فرنویس حکومت کے لئے نازک مسئلہ ثابت ہوگا۔ گزشتہ سال 9 اگسٹ 2017 ء کو ہی مہاراشٹرا بھر میں بڑی ریالی نکالی گئی تھی اس سے قبل 9 اگسٹ 2016 ء سے مراٹھا باشندوں نے خاموش احتجاجی جلوس بھی نکالے تاکہ اپنے حق میں تحفظات کے حصول کو یقینی بناسکیں۔ مراٹھا برادری کے مطالبات کو قبول کرنا کسی بھی حکومت کے لئے ایک دیرینہ مسئلہ بن جائے گا کیوں کہ ان کے مطالبات میں درج فہرست ذاتوں اور قبائلیوں کے قانون 1989 کو برخواست کرنے کا بھی مطالبہ شامل ہے۔ مراٹھا طبقہ اور دلتوں کے درمیان راست تصادم کی نوعیت مہاراشٹرا کے لئے سنگین صورتحال پیدا کردے گی۔ ریاستی حکومت کے لئے تحفظات مسئلہ سے نمٹنے سے زیادہ مراٹھا باشندوں کے دیگر مطالبات کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے دستوری ترمیم کی ضرورت ہوگی اور ایک ریاستی حکومت اتنا بڑا قدم اُٹھانے سے قاصر ہے۔ دلتوں کے تعلق سے قانون کے بارے میں جب سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آیا تو احتجاجی مراٹھوؤں نے سکون اختیار کرلیا تھا لیکن تحفظات کا مسئلہ ایک بار پھر اُٹھایا گیا ہے۔ اس مرتبہ تحفظات کے لئے احتجاج کا رُخ ریاستی حکومت کی بقاء کے لئے خطرہ کی سمت پیشرفت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ آئندہ ہفتہ 9 اگسٹ جمعرات کو پوری ریاست میں بڑے پیمانے پر احتجاج کرنے کا اعلان ریاستی نظم و نسشق کے لئے کڑی آزمائش ثابت ہوتا ہے تو تحفظات کے حصول کے لئے مراٹھا باشندوں کا احتجاج دیگر طبقات کے لئے ایک مثال بن جائے گا۔ خاص کر تلنگانہ کے مسلمانوں کے لئے تحفظات کا مسئلہ حکومت کے وعدہ کے باوجود پورا نہیں ہوا ہے۔ مہاراشٹرا کے مراٹھا باشندوں نے جو مہاراشٹرا کی آبادی میں 30 فیصد حصہ رکھتے ہیں اپنے احتجاج کے ذریعہ حکومت کی بنیادوں کو ہلادیا ہے۔ یکم اگسٹ سے ان کے احتجاج میں شدت کو دیکھتے ہوئے حکومت نے یہ ضرور کہا ہے کہ وہ مراٹھاؤں کو قانونی طریقہ سے تحفظات دینے کی خواہاں ہے۔ احتجاجیوں کے جیل بھرو پروگرام نے چیف منسٹر کو تحفظات کے حق میں بیان دینے کے لئے مجبور کردیا۔ مہاراشٹرا میں مراٹھاؤں کا غلبہ ہے۔ وہ حکمراں درجہ کے طبقہ میں روایتی طور پر غلبہ رکھتے ہیں۔ چھتراپتی شیواجی کے دور سے ہی مراٹھا لابی کو خاص اہمیت حاصل ہے اس کے باوجود یہ طبقہ اپنے لئے تحفظات کا مطالبہ کررہا ہے تو ریاست کے دیگر غریب اور پسماندہ طبقات کو ملنے والے تحفظات کو دھکہ پہونچایا جانے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ 2014 ء سے چیف منسٹر کی حیثیت سے دیویندر فرنویس نے آر ایس ایس کنٹرول حکومت چلاتے ہوئے اپنے ہاتھ باندھ لیتے ہیں تو کوٹہ کی سیاست اور مراٹھا عوام کے احتجاج کے درمیان جو فاصلہ گھٹا ہے اس سے حکومت کی بقاء کا مسئلہ بھی پیدا ہونے لگا ہے۔ ریاست مہاراشٹرا میں سیاسی بدامنی کی صورتحال آر ایس ایس کی صحت کے لئے ٹھیک نہیں سمجھی جائے گی۔ اب ناراض طبقہ اپنے مطالبات کی یکسوئی کے لئے جب سڑکوں پر اُترتا ہے اور قومی شاہراؤں پر رکاوٹیں کھڑا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو سارا نظم و نسق اور عوامی زندگی ٹھپ ہوجائے گی۔ ریاست میں مراٹھوؤں کے احتجاج کو غیر ضروری اور زیادتی کا حربہ تصور کرنے والوں کا خیال غور طلب ہے کہ اس طبقہ سے ہمیشہ براہمنوں اور دلتوں کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار کی ہے۔ معاشی محاذ پر مراٹھاؤں نے دلتوں کے ساتھ ٹکراؤ کا ماحول پیدا کیا ہے۔ دلتوں کو نہ صرف سرکاری ملازمتوں میں تحفظات حاصل ہیں بلکہ زراعت کے لئے اراضی کی شکل میں حکومت کی مراعات اور رعایت بھی حاصل ہے۔ مراٹھا باشندوں کی اکثریت کسان برادری سے تعلق رکھتی ہے۔ مراٹھاؤں کو تحفظات کی ضرورت اس لئے محسوس کی گئی ہے کہ اس کے ذریعہ ہی وہ مالیاتی طور پر دیگر طبقات سے اوپر اُٹھ سکیں گے۔ دلتوں کے مقابل دیکھا جائے تو ان کا سماجی موقف مضبوط اور اونچا ہے اس کے باوجود وہ دلتوں کی طرح تحفظات کے ذریعہ خود کو طاقتور بنانا چاہتے ہیں تو یہ حکومت کے لئے فی الحال ممکن نہیں ہے کہ وہ اس کے مطالبات کو فی الفور قبول کرلے اس لئے فرنویس حکومت نے تحفظات مسئلہ کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا وعدہ کرکے کچھ مہلت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کمیٹی نے ہنوز کوئی رپورٹ پیش نہیں کی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنے ٹال مٹول کے حربے سے احتجاجیوں کو کچھ وقت کے لئے روکنے میں کامیاب ہوتی ہے یا احتجاجی مراٹھا باشندے اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہونے کے لئے کس حد تک جائیں گے۔
میڈیا کیخلاف ٹرمپ کی اشتعال انگیزی
میڈیا کو نشانہ بنانے کے واقعات نئے نہیں ہیں۔ صحافیوں کے خلاف سیاستدانوں اور حکمرانوں کی دشمنی کسی سے پوشیدہ بھی نہیں۔ اس مرتبہ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے صحافت پر راست اسٹراٹیجک حملے کئے ہیں۔ اُن کی بار بار کی جانے والی مخالف صحافت تنقیدوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سچائی قبول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ صدارتی انتخابات کے دور سے ہی ٹرمپ نے میڈیا کو اپنا مخالف سمجھ کر اس کے خلاف اپنی جو رائے قائم کرلی ہے اس کا نتیجہ ہے کہ اب بھی وہ صحافیوں کو مختلف عنوانات سے کوستے آرہے ہیں۔ میڈیا پر عوام کا بھروسہ متزلزل کرنے کی کوشش کے حصہ کے طور پر ٹرمپ نے صحافیوں کے خلاف اشتعال انگیزی شروع کردی ہے۔ اُنھوں نے میڈیا کو امریکی عوام کا دشمن قرار دینے کی مہم شروع کی ہے۔ ان کی نظر میں صحافت غیر معتبر پیشہ ہے جہاں جھوٹی خبریں تیار کی جاتی ہیں۔ صحافت پر الزام بھی لگارہے ہیں اس نے جمہوریت کو تباہ کردیا ہے اور سازشی پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہوئے ایک سوپر پاور ملک کے صدر کی حیثیت سے اُنھوں نے اپنے فرائض کو فراموش کیا ہے۔ وہ امریکی صحافیوں کو حب الوطن تسلیم نہیں کرتے۔ امریکی صدر کی حیثیت سے گزشتہ دو سال سے میڈیا کے ساتھ ان کی سرد جنگ کا اختتام کب ہوگا یہ ناقابل فہم ہے۔ امریکی نظم و نسق کو خاص کر ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کو صحافیوں کے خلاف قانونی کارروائیوں سے گریز کرنا چاہئے۔ میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش ایک بڑے جمہوری ملک کے لئے مناسب نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ صدر امریکہ کی حیثیت سے وہ اپنے ملک میں صحافت کی آزادی کو یقینی بنائیں۔ اس کے بجائے وہ خود ہی میڈیا کی مذمت کررہے ہیں اور صحافیوں کو سنگین نتائج کی دھمکی دے رہے ہیں۔ تو یہ نازک مسئلہ بن رہا ہے۔ امریکی صحافت کو بھی خاص کر ان صحافی گوشوں کو جو صدر امریکہ ٹرمپ کو متواتر نشانہ بنارہے ہیں اپنے رویہ میں تبدیلی لاکر امریکی نظم و نسق سے تصادم کا راستہ ترک کرنا چاہئے۔