سر بکف روز ہی میدان میں اُترے ہیں حسینؓ
شیطنت روز نیا روپ بدل کر آئی
مذہب کی آڑ میں شیطانیت
ہندوستان کو مذہبی سرزمین کہا جاتا ہے ۔ یہاں بے شمار مذاہب کے ماننے والے رہتے بستے ہیں۔ ہر شہر اور ہر گاؤں میں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہب فرائض ک ادائیگی بھی انجام دیتے ہیں۔ ہندوستانی عوام مذہب کے معاملے میں جذباتی بھی ہیں ۔ یہ وجہ ہے کہ جذبات کو بھڑکا کر لوگ اپنے مفادات کی تکمیل کرلیتے ہیں۔ چاہے یہ سیاسی قائدین ہوں یا پھر سرکاری حکام ہوں ۔ اب تو مذہب کے لبادے میں بھیڑئے بھی عوام کو بیوقوف بنانے اور ان کا استحصال کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے ۔ مذہبی لبادہ اوڑھ کر کروڑوں اور اربوں روپئے کی دولت جمع کرلینا ‘ پر تعیش زندگی گذارنا ‘ کئی ایکر اراضیات پر آشرم اور اپنی پناہ گاہیں قائم کرلینا ان کی عادت بن گئی ہے ۔ ہندوستان کی تقریبا ہر ریاست اور ہر بڑے شہر میں کسی نہ کسی مذہبی شخصیت کا اثر عام عوام پر دیکھنے میں آیا ہے ۔ چاہے یہ مذہبی شخصیات واقعی مذہبی روایت کا پاس و لحاظ کرتی ہوں یا محض دکھاوا کرتی ہوں ان سب کے پیچھے ہزاروں کی تعداد میں عوام کی موجودگی اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ مذہبی اعتبار سے ہندوستانی عوام جذباتی ہیں۔ چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں اپنے مذہب کے معاملہ میں جذباتیت اور بیشتر موقعوں پر اندھی عقیدت نے عوام کو ہمیشہ ہی نقصان کا شکار کیا ہے اور انہیں بیوقوف بنانے والے اپنی زندگیوں کو پرتعیش انداز میں گذارنے کے عادی بھی پائے گئے ہیں۔ اکثر و بیشتر نام نہاد مذہبی شخصیتوں کو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث بھی پایا گیا ہے ۔ عوام عقیدت کے نام پر اس قدر بیوقوف بنائے جاتے ہیں کہ انہیں اپنے گرو کی غیر قانونی سرگرمیوں پر بھی اعتراض نہیں ہوتا ۔ وہ اسے بھی ان کے کرشموں سے تعبیر کرتے ہیں یا انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ عوام کی یہی اندھی عقیدت یا مذہبی جذباتیت مذہب کا استحصال کرنے والوں کو اپنے مفادات کی تکمیل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے ۔ مذہب کا استحصال کرنے والے ایک طرف اپنے بھکتوں کو تو مذہب سے ڈراتے ہیں لیکن خود وہ مذہبی تعلیمات کی جو دھجیاں اڑاتے ہیں اس پر کسی طرح کی کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی اور وہ دھڑلے سے مذہبی تعلیمات کو پامال کرتے چلے جاتے ہیں۔
حالیہ عرصہ میں ایسے بے شمار واقعات سامنے آئے ہیں جن میںدھوکے باز اور ڈھونگی افراد نے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر بھولے بھالے یا کسی حد تک جذباتی عوام کو بے وقوف بناتے ہوئے اپنی ایک الگ دنیا ہی آباد کرلی تھی ۔ یہ ایسی دنیا ہوتی ہے جہاں دنیا دکھاوے کو مذہب کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن ساری سرگرمیاں غیر قانونی اور ناجائز ہوتی ہیں جن کی دنیا کے کسی بھی مذہب یا کسی بھی قانون میں اجازت نہیں ہوسکتی ۔ خواتین کے ساتھ جنسی استحصال ‘ معصوم عوام سے کروڑ ہا روپئے کے عطیات حاصل کرنا ‘ انہیں عملی طور پر اپنا غلام بنائے رکھنا اور بعض آشرموں میں تو غیر قانونی طور پر نشیلی ادویات کی فروخت ‘ جسم فروشی اور قحبہ گری جیسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ ان سارے کالے دھندوں کو کسی رکاوٹ اور پریشانی کے بغیر آگے بڑھانے کیلئے مذہبی لباد ہ کا سہارا ہی لیا جاتا ہے اور یہ انتہائی مذموم اور ناقابل قبول فعل ہے ۔ چاہے وہ آسارام ہوں کہ سوامی نتیا نند ہوں ‘ یا پھر اب سنت رام پال ہوں ۔ یہ سب اپنی زندگیوں کو انتہائی پر تعیش بناکر عوام کا استحصال کرنے کے ملزم ہیں اور سب سے زیادہ تشویش کی بات تو یہ ہے کہ قانون کو ماننے یا اس کا احترام کرنے کی بجائے اس کیلئے چیلنج بننے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ گذشتہ ایک ہفتے سے زیادہ وقت سے ہریانہ کے ہسار میں سنت رام پال کے آشرم کے پاس پیش آنے والے حالات اس کی واضح مثال ہیں ۔ یہاں جو کچھ ڈرامہ بازی ہوئی ہے اسے ساری دنیا نے دیکھا ہے ۔
ایک اور اہم پہلو اس طرح کے معاملات میں اہمیت کا حامل ہے اور وہ یہ کہ ملک کے نفاذ قانون کے اداروں نے بھی اس تعلق سے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ یہ کہا جائے تو بیجانہ ہوگا کہ ان اداروں یا قانون کے رکھوالوں نے بھی اپنی عقیدت یا پھر لا پرواہی کے ذریعہ اس طرح کے دھوکہ بازوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور وہ عوام کے استحصال کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نفاذ قانون کی ایجنسیاں اور ادارے مذہبی آشرموں کے معاملات میں عوام کی جذباتی وابستگی کو دیکھتے ہوئے دخل دینا پسند نہیں کرتے حالانکہ یہاں قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور ہر غیر قانونی کام کیا جاتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے دھوکہ بازوں کے خلاف جہاں عوام میں مہم چلاتے ہوئے ان میں شعور بیدار کیا جائے وہیں نفاذ قانون کے ادارے اور ایجنسیاں بھی اس طرح کے آشرموں اور باباوں کی وقفہ وقفہ سے جانچ پڑتال کرتے رہیں اور ان میں بھی قانون کے احترام اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں تاکہ عوام کے استحصال کا سلسلہ بند ہوسکے ۔