مذہب اور عمر کے بندھن کو توڑ کر ذاکر سے ملی جیوتی

غازی آباد: دو الگ الگ مذہب لیکن سوچ ایک جیسی اور عمر بھی ایک۔مگر مذہب کے بعد دوسری بڑی رکاوٹ عمر ہی تھی۔دونوں عمر کا اس پڑاؤ پر پہنچ چکے ہیں کہ جس میں شادی کرنا معاشرہ کو پسند نہیں ۔لیکن اس کے بعد بھی دونوں نے شادی کرلی۔اس میں ون اسٹاپ سنٹر یعنی آشا جیوتی مرکز کا تعاون اور حمایت رہا۔ا س جوڑے کا نام جیو تی اور ذاکر ۔ ذاکر کی پہلے دو بیویوں کا انتقال ہو گیا ہے اور انہیں تین بیٹے ہیں ۔ جن میں سے دو کی شادی ہوگئی ہے۔

اور کلکتہ کی رہنے والی ۴۶ سالہ جیوتی کے شوہر کابیس سال قبل انتقال ہوگیاہے ۔اور انہیں دو بیٹیاں ہیں۔دونوں بیٹیوں کو اپنے ماماکے گھر چھوڑ کر دہلی میں نوکری کرنے لگی۔ اور چار سال قبل دہلی میں بڑی بیٹی کی شادی کردی۔دہلی میں کپڑے سپلائی کر نے والے ذاکر کی ملاقات دو ماہ قبل جیو تی سے ہوئی۔

اس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔دو ہفتہ قبل جیوتی ذاکر کے سالے کو دیکھنے آئیں۔یہاں انھوں نے اپنی بیٹی کو اطلاع کرنا چاہتی تھی ۔ لیکن اتفاق سے اس کا فون سوئچ آف ہوگیا۔بہت دیر ہونے کے بعد بیٹی نے ماں کے گھر نہ پہنچنے پر بیٹی نے پولیس کی مدد لی اور ماں کے اغوا کی اطلاع دیدی۔

پولیس نے ون اسٹاپ سنٹر کی مدد سے ذاکر کا فون نمبر حاصل کیا اور پھر جیوتی سے بات کی۔اغوا کی بات سے دونوں نے انکار کر دیا۔سوشل ورکر پریا انجلی مشرا نے بتایا کہ دونوں خود ہی مرکز پہنچے اور شادی کی خواہش ظاہر کئے۔دونوں کے خاندان سے انجلی مشرا نے بات کی اور انہیں بھی شادی کے لئے منایا۔۲۳ فروری کو دونوں کے خاندان کی موجودگی میں سنٹر کے لوگو ں نے ان کی شادی کروائی۔

انجلی مشرا کا کہنا ہے کہ اس معاملہ کو محض دو دن میں ہی سلجھادیا گیا۔رپورٹ میں انجلی مشرا نے لکھا کہ ۱۸ سال کے بچے بالغ مانے جاتے ہیں اور بالغ اپنا فیصلہ لے سکتا ہے۔ایسے میں والدین کیوں نہیں ۔زندگی گذارنے کے لئے سب کو آئین ملا ہے جس میں کسی کو کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔