قانون کی ازسرنو تدوین سے انکار ، صدارتی حکم ناموں کی تدوین دستور سے ’’دھوکہ دہی‘‘ ، سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ
نئی دہلی ۔2 جنوری ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) سپریم کورٹ نے آج اپنے ایک اکثریتی فیصلہ میں کہا کہ مذہب ، ذات پات، نسل ، فرقہ یا زبان کی بنیاد پر ووٹ دینے کی اپیل دراصل انتخابی قانون کی دفعات کے تحت رشوت و بدعنوانی کے عمل کے مترادف ہوتی ہے ۔ چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر اور دیگر تین ججوں نے 4:3 فیصلہ میں قانون عوامی نمائندگی کی رشوت وبدعنوانی کے عمل سے نمٹنے سے متعلق دفعہ 123(3) کے تحت استعمال کردہ ’’اس کا مذہب‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ووٹرس ، امیدواروں اور ان کے ایجنٹوں کے بشمول تمام کا مذہب ہوتا ہے۔ تاہم تین ججوں یو یو للت ، اے کے گوئیل اور ڈی وائی چندراچوڑ کے اقلیتی نظریہ میں کہا گیا ہے کہ ’’اس کامذہب ‘‘کے معنی صرف امیدوار کا مذہب ہیں۔ اکثریتی نظریہ سے جسٹس ایم بی لو کوڑ جسٹس اے اے بوہڈے اور جسٹس ایل این راؤ نے بھی اتفاق کیا ہے اور کہاکہ اس قسم کے مسائل سے نمٹتے وقت سیکولرازم کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے ۔ عدالت عظمی نے 27 اکتوبر کو اپنا فیصلہ محفوظ کردیا تھا ۔ جو اس سوال سے متعلق تھا کہ آیا مذہب ، فرقہ ، ذات پات اور زبان کی بنیاد پر ووٹ نہ دینے کی اپیل کرنا بھی رشوت و بدعنوانی کا عمل تصور کیا جاسکتا ہے ۔ قبل ازیں ایک فیصلہ میں یہ تشریح کی گئی تھی ’’اس کا مذہب‘‘ کی اصطلاح کا مطلب صرف امیدوار کامذہب یا عقیدہ ہی ہوتی ہے جس کا حوالہ قانون عوامی نمائندگی اور 123(3) کے تحت دیا گیا ہے ۔ اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ ’’کسی امیدوار یا اس کے ایجنٹ یا امیدوار کی اجازت سے کسی بھی د وسرے شخص کی جانب سے کسی مذہب ، فرقہ ، ذات پات ، نسل یا زبان کی بنیاد یا پھر کسی مذہبی یا قومی نشان کے استعمال کے ذریعہ کسی شخص کو وٹ دینے یا ووٹ دینے سے احتراز کی اپیل کرنا رشوت و بدعنوانی کے عمل کے مترادف ہے جس سے کسی امیدوار کے انتخاب کے امکانات کو تقیوت مل سکتی ہے یا کسی دوسرے امیدوار کے انتخاب کے مواقع متاثر ہوسکتے ہیں‘‘ ۔ اس بنچ نے کہاکہ ’’مذہب پر عمل اور اس کا پرچار کرنے کی آزادی ہے ‘‘ لیکن یہ سوال بھی کیا کہ آیا ’’اس (مذہب) کو انتخآبی مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ؟ ‘‘ ۔ یہ بنچ اس ضمن میں مختلف درخواستوں کی سماعت کررہی تھی جس میں ایک درخواست ابھی رام سنگھ کی بھی ہے جن کا حلقہ سانتاکروز سے بحیثیت بی جے پی ایم ایل اے انتخاب 1990 ء میں بمبئی ہائیکورٹ کی طرف سے کالعدم کردیا گیا تھا ۔ عدالت عظمیٰ نے فروری 2014 ء میں ابھی رام سنگھ کی د رخواست بھی دیگر درخواستوں کے ساتھ منسلک کردی تھی جس میں پانچ ججوں کی ایک بنچ نے 2002 ء کے دوران ’’ہندوتوا‘‘ سے متعلق 20 سال قدیم فیصلہ پر دوبارہ غور کیا جاسکے ۔ چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی قیادت والی بنچ نے اس معاملے میں سماعت کے دوران عوامی نمائندگی قانون کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کیلئے اپیل کرنے کے معاملے میں کس مذہب کی بات ہے ۔ فیصلے میں کہا گیا کہ انتخابات ایک سیکولر طریقہ ہے اور عوامی نمائندوں کو بھی اپنے کام کاج سیکولر بنیاد پر ہی کرنے چاہیے ۔عدالت نے اکثریت کی بنیاد پر دیے گئے اس فیصلے میں کہا کہ مذہب کی بنیاد پر ووٹ دینے کی کوئی بھی اپیل انتخابی قوانین کے تحت بدعنوانی کی طرح ہے ۔ عدالت نے کہا کہ بھگوان اور انسان کے درمیان کا رشتہ ذاتی معاملہ ہے ۔ کوئی بھی حکومت کسی ایک مذہب کے ساتھ خاص سلوک نہیں کر سکتی اورخاص مذہب کے ساتھ خود کو شامل نہیں کر سکتی۔سپریم کورٹ نے کہاکہ کوئی بھی حکومت مکمل نہیں ہوتی اور اس کی کوتاہیوں اور خامیوں کو دور کرنا عدالتی ذمہ داری نہیں ہے ۔ عدالت قوانین کو ازسرنو مدون نہیں کرسکتی ۔ سپریم کورٹ نے کہاکہ اصطلاح ’’اُس کا مذہب‘‘ کا مطلب صرف امیدوار کا عقیدہ انتخابی قانون کی نظر میں ہے ۔ سپریم کورٹ کی 7 رکنی بنچ نے کہاکہ صدارتی حکمناموں کی تدوین دستور ہند کے ساتھ ’’دھوکہ دہی‘‘ ہے اور جمہوری قانون سازی کے عمل کی اہمیت کم کرنے کی کوشش ہے ۔ خاص طورپر جب حکومت مستقل طورپر قانون سازی سے پہلے صدارتی حکم نامے جاری کرتی ہے تو اس سے دستوری روح ناکام ہوجاتی ہے ، جس کے تحت صدارتی حکمنامے جاری کرنے کے محدود اختیارات صدرجمہوریہ ہند اور گورنر کو دیئے گئے ہیں۔ صرف ہنگامی صورتحال میں قانون سازی سے پہلے صدارتی حکمنامے جاری کئے جانے چاہئے ۔ اس کو ایک مستقل عمل نہیں بنایاجانا چاہئے ، کیونکہ اس سے دستور کی روح اور جذبے کی تحقیر ہوتی ہے اور جمہوری طریقہ کار کی اہمیت کم ہوجاتی ہے ۔