دیکھنا دیکھنا یہ حضرت واعظ تونہیں
کوئی بیٹھا نظر آتا ہے پس خم مجھ کو
مذہبی عدم رواداری پر بحث
ہندوستان میں ایک انسان سے زیادہ گائے کی موت کی اہمیت ہے۔ فلم اداکار نصیرالدین شاہ کے اس ریمارک نے سوشیل میڈیا پر بحث چھیڑ دی، تو پڑوسی ملک پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے نصیرالدین شاہ کے بیان کے حوالے سے ہندوستان میں اقلیتوں کی بری حالت پر بیان دیکر اس بیان بازی کو مزید بھڑکادیا ہے۔ ملک کو ان دنوں درپیش کئی اہم مسائل کو نظرانداز کرے جب ذمہ دار لوگ حقیر اور معمولی موضوعات پر اپنا قیمتی وقت صرف کرتے ہیں تو یوں سمجھئے کہ اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔ اترپردیش کے بشمول ملک کی کئی ریاستوں میں ہجومی تشدد، گائے کے گوشت اور نفرت پر مبنی پروپگنڈہ مہم نے کئی حب الوطن شہریوں کو مضطرب کردیا ہے۔ ان میں اداکار نصیرالدین شاہ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ہجومی تشدد کے ذریعہ عام انسانوں کی ہلاکت اور گائے کو دی جانے والی اہمیت پر سوال اٹھایا تھا۔ اسی گائے کی ہلاکت کے مسئلہ پر اترپردیش سے ٹاؤن بلند شہر میں ایک انسپکٹر کی موت اور ایک شہری کی ہلاکت سے زیادہ گائے کے ڈھانچہ کو موضوع بنا کر پولیس نے تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔ پولیس نے اپنے ساتھی ملازم کی موت کا سخت نوٹ نہیں لیا البتہ گائے کے ڈھانچہ کی دستیابی اور گائے کی موت کیلئے ذمہ دار افراد کی تلاش پولیس کا اہم فریضہ بن گیا۔ افسوسناک بات ہیکہ جب پولیس عہدیدار اپنے ہی ساتھی کی موت کے معاملہ کو گائے کی موت پر دبانے کی کوشش کرتے ہوئے اور ان کے نزدیک انسان کی موت کوئی اہمیت نہیں رکھتی تو پھر ہندوستان کو بیرون ملک بدنامی سے کون روک سکے گا۔ ہندوستان میں اقلیتوں کا تحفظ ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے معاملہ کو اجاگر کرنے کی کوشش کی لیکن اس بیان کو ہندوپاک کشیدگی کے ماحول کی نذر کردیا گیا۔ ہندوستان میں مذہبی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں کوئی کمی نہیں دیکھی گئی اگر سچائی کی جانب نشاندہی کرنے سے حکمراں طبقہ چراغ پا ہوتا ہے اور اس کے کارندے اس سچائی کو ہندوستان کی توہین سے تعبیر کرتے ہیں تو حقیقت کیا ہے؟ حقیقت یہی ہیکہ یہاں عدم رواداری کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آنے والے لوک سبھا انتخابات سے قبل بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کو اپنی بقاء کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہندوستان کی اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کیلئے کون ذمہ دار ہیں۔ ان دنوں ہندوستان میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اقلیتوں کو اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ اداکار نے بھی ہی تشویش ظاہر کی کہ ان دنوں ہندوستان میں اپنے بچوں کیلئے بے چینی محسوس کررہا ہوں اس سے وہ خوفزدہ نہیں ہیں لیکن اس طرح کے حالات پر انہیں غصہ ضرور آرہا ہے اور بری طرح ہر صاحب سمجھ شخص برہمی محسوس کررہا ہوگا۔ اس بیان کو دوسرے تناظر میں لیتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے ہندوستان کے اندر اقلیتوں کی کیفیت کے حوالہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جو کسی بھی ملک کے اندرونی معاملہ میں بیرونی مداخلت کے مترادف کہلاتا ہے۔ مرکز کی مودی حکومت میں ہندوستان کے اندر اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے برتاؤ سے ساری دنیا واقف ہے۔ اگر کوئی ہندوستانی اس تلخ حقیقت کی جانب نشاندہی کرتا ہے تو اسے ملک کا غدار اور پاکستان کا بحیثیت قرار دیکر اس کی بے عزتی کی جاتی ہے۔ بی جے پی حکومت اپنے خلاف اٹھنے والی ہر انگلی کو کچلتے ہوئے خاموش رہنے کی دھمکی دے رہی ہے۔ یہ ایک ایسا عدم رواداری کا ماحول ہے جس میں اقلیتوں کو سانس لینا محال کردیا گیا ہے۔ اس مسئلہ پر اگر پڑوسی ملک پاکستان فائدہ حاصل کرتے ہوئے اپنی دانست میں ہندوستانی اقلیتوں کی بے بسی دور کررہا ہے تو یہ ناقابل فہم ہے پاکستان کو اپنے حالات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہندوستانی اقلیتوں کے بارے میں پاکستان کی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک سے کچھ سیکھنا نہیں ہے۔ ہندوستانی جمہوریت اور اس کے اندرونی حالات کے بارے میں پاکستان کا خیال یکسر مسترد کردیا جاتا ہے۔