ہندوستان کی سرزمین پر پارلیمانی جمہوریت کو پروان چڑھانے والے عوام نے بدقسمتی سے اس جمہوریت کی ذمہ داری اب ایسے ہاتھوں کے حوالے کی ہے جو مذہبی رواداری کو ٹھیس پہونچانے والی حرکتوں کو شان حکمرانی تصور کرتے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کی دعوت پر ہندوستان کا سفر کرنے والے صدر امریکہ بارک اوباما نے اپنے تین روزہ دورہ کے اختتام پر ہندوستان میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف مودی حکومت کو انتباہ دیا ۔اوباما کی تقریر بی جے پی زیر قیادت نریندر مودی حکومت میں زعفرانی تنظیموں کی تبدیلی مذہب سرگرمیوں خاص کر ’’ گھر واپسی‘‘ پروگرام کے تناظر میں اہمیت کی حامل سمجھی جارہی ہے ۔ بی جے پی کی سیاسی زمین میں نامعلوم خرابی یہ ہے کہ وہ حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی کہ مذہبی انصاف اور ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک ہی کو جمہوریت کی اصل کڑی سمجھا جاتا ہے ۔ دستور ساز وں نے تدوین دستور کے وقت پارلیمانی طرز کی حکمرانی اور مذہبی رواداری کی ٹھوس باتوں کو شامل کیا تھا لیکن حالیہ برسوں میں دستور کے مغائر کام کرنے والی زعفرانی تنظیموں نے ہندوستان کی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی رویہ اختیار کر کے مختلف مسائل پیدا کئے ہیں۔ صدر امریکہ اوباما نے مذہبی رواداری اور خواتین کے حقوق پر ہندوستان کے حالیہ ریکارڈ کو چیلنج کیا ہے ۔
اوباما نے تین دن کے قیام کے دوران جب تک مودی کے ساتھ تھے انداز تقریر مختلف تھی بلکہ موافق میزبان لب و لہجہ اختیار کیا تھا لیکن جب وزیر نریندر مودی ، ان کے ہمراہ نہیں تھے ، انہوں نے مذہبی ا قلیتوں کے حقوق پر مسئلہ اٹھاکر مودی حکومت میں ہونے والی اقلیتوں کے ساتھ زیادتیوں کا نوٹ لیا ہے ۔اوباما نے بالواسطہ طور پر مودی کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی زعفرانی تنظیموں جیسے وی ایچ پی ، بجرنگ دل ، آر ایس ایس اور دیگر ہندو محاذی تنظیموں کو مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنے اور تبدیلی مذہب کی کوشش سے باز آنے کی ہدایت دیں۔ اوباما کی میزبانی کرنے والی تنظیموں کے سربراہوں کو اس ہدایت پر شور شرابہ کرنے کی بھی جرات نہیں ہوگی کیوں کہ انہوں نے خود اوباما کو دعوت دی تھی اور ان کے مہمان نے اپنے میزبانوں کی خرابیوں کا سخت نوٹ لیا ہے ۔ ان کی تقریر سے یہ امید تو پیدا ہونی چاہئے کہ نریندر مودی اپنے مہمان کی باتوں سے سبق حاصل کر کے زعفرانی تنظیموں کو باز رکھیں گے ۔اوباما کا پیام ان سیاستدانوں اور ان کے حامیوں کے لئے واضح ہے جو ہندوستانی اقلیتوں کو برداشت کرنے کا مادہ نہیں رکھتے ۔ مذہبی غیر رواداری کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے عوام سے اظہار ہمدردی کرنے والے اوباما کو اپنے ملک میں بھی ماضی میں ایسے کئی امتیازات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔
امریکہ میں ہونے والی مذہبی اور نسلی امتیاز کے حوالے سے اوباما نے یہ راست تجزیہ کیا ہے کہ کوئی بھی سماج تنگ نظر انسانوں کی خرابیوں اور زیادتیوں سے محفوظ نہیں ہے۔ انہوں نے اس تناظر میں امریکہ کے شہر میں ایک سکھ مندر پر حملہ کا حوالہ دیا اور 2002 ء میں گجرات فسادات میں مسلم نسل کسی کے واقعات بھی ان کے ذہن کے کسی گوشے میں مودی کو مورد الزام ٹھہراتے ہوں گے۔ اس لئے ان کی تقریر کو مودی حکومت کی سرزنش کے مترادف کہا جارہا ہے ۔ اوباما نے مہاتما گاندھی کے حوالے سے کہا تھا کہ امریکہ اور ہندوستان میں مقیم عوام مختلف مذاہب اور عقائد سے متعلق رکھتے ہیں اور یہ تمائم ایک ہی گلدستے کے پھول ہیں اور ہر ایک کو اپنے پر عل کرنے کی آزادی دونوں ملکوں کے دستور میں شامل ہیں کیونکہ ہر ایک شخص کو اپنے پسند کی مذہبی آزادی اور عقیدہ پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے ۔ ہندوستان میں انسانی حقوق کمیشن کے پاس موجود ریکارڈ کو اگر اوباما کے زیر مطالعہ رکھا جاتا تو وہ شائد مودی کے دعوت نامہ کو قبول کرنے سے پس و پیش ضرور کرتے کیونکہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران ہونے والی تبدیلی مذہب کی زیادتیوں اقلیتوں پر حملے ، ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ گزشتہ 6 ہفتوں کے دوران دہلی میں چار گرجا گھروں پر حملے کئے گئے تھے ۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ اور گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ حیدرآباد میں بھی اقلیتوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں۔ اوباما نے میزبانی کا جس لیڈر کو موقع دیا تھا ان کے بارے میں یہ جانکاری نہیں رکھی کہ 2001 ء سے 2014 ء تک چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے انہوں نے اپنے کٹر پسند نظریہ کو ہی فروع دیا تھا جس میں مذہبی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے ہندوستان کی ا کثریتی آبادی کے ذہنوں کو مذہبی اقلیتوں کے خلاف زہر آلود کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔