مذہبی اقلیتیں اور مسلمان سماجی امتیاز کا شکار : حامد انصاری

نئی دہلی 27 ستمبر ( سیاست ڈاٹ کام ) درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے علاوہ مذہبی اقلیتوں اور خواتین کو اپنی سماجی شناخت کی وجہ سے امتیاز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے نتیجہ میں انہیں وسائل اور مواقع تک رسائی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں سیول حقوق بھی نہیں مل پا رہے ہیں۔ نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری نے آج یہ بات کہی ۔ انہوں نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف دلت اسٹڈیز میں ایک لکچر کے دوران اس خیال کا اظہار کیا ۔ انہوں نے کہا کہ درج فہرست ذاتوں اور او بی سیز کو ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کا سامنا ہے تو قبائلیوں کو طبعی اور سماجی طور پر یکا و تنہا کیا جارہا ہے ۔ مذہبی اقلیتیں خاص طور پر مسلمان اکثریتی آبادی سے بیشتر انسانی ترقی امور میں پیچھے ہیں اور انہیں بھی سماجی امتیاز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ملک کی آبادی کا نصف حصہ ہونے کے باوجود خواتین کو بھی مسائل کا سامنا ہے۔

اور انہیں نہ صرف ذات پات بلکہ نسل اور مذہبی بنیادوں پر بھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جناب حامد انصاری نے کہا کہ ایس سی ‘ ایس ٹی اور او بی سیز ہندوستان کی آبادی کا بحیثیت مجموعی نصف حصہ ہیں او مذہبی اقلیتیں اور مسلمہ و غیر مسلمہ قبائلی عوام کو ملا کر یہ ملک کی آبادی کا تین چوتھائی حصہ ہوتے ہیں۔ اس تعداد کو دیکھتے ہوئے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ کتنا سنگین ہے اور اس کو حل کرنا کتنی اہمیت کا حامل ہے ۔ نائب صدر نے کہا کہ آزادی کے بعد سے ہمارا ترقیاتی تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے عوام کے معیار زندگی میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شہری اور دیہی علاقوں میں تمام سماجی ‘ مذہبی اور معاشی گروپس میں غربت کی سطح میں کمی آئی ہے ۔ خاص طور پر گذشتہ 20 سال میں ایسا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ناقص غذا ‘ بچوں کی اموات ‘ زچہ کی اموات میں کمی آنے کے علاوہ خواندگی کی شرح میں بھی بہتری ہوئی ہے ۔ بے گھر افراد کی تعداد گھٹی ہے ۔ اس کے علاوہ سینیٹیشن کی سہولیات بھی بہتر انداز میں پہونچائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے تاہم اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ان سب مثبت اشاروں کے باوجود ہمارے ترقیاتی ایجنڈہ کا نتیجہ سماجی ‘ مذہبی اور معاشی گروپس میں غیر مساوی رہا ہے ۔