مذہبی آزادی پر امریکی رپورٹ کیخلاف حکومت کا شدید ردعمل

ہندوستانی شہریوں کو دستوری طور پر محفوظ حقوق کے بارے میں بیرونی گوشوں کو تبصرہ یا مداخلت کرنے کی اجازت نہیں

نئی دہلی ۔ 3 مئی (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستان نے آج ایک امریکی رپورٹ پر شدید ردعمل ظاہر کیا جس میں کہا گیا ہیکہ ہندوستان میں سال 2015ء میں مذہبی آزادی منفی ڈگر پر چلتی رہی۔ ہندوستان نے کہا کہ اس رپورٹ سے ہندوستان، اس کے دستور اور اس کے سماج کو مناسب ڈھنگ سے سمجھنے میں ناکامی کا اظہار ہوتا ہے۔ وزارت امورخارجہ کے ترجمان وکاس سواروپ نے کہا کہ حکومت کسی بیرونی ادارہ جیسے یو ایس سی آئی آر ایف کو اس بات کا مجاز نہیں سمجھتی کہ ہندوستانی شہریوں کے دستوری طور پر محفوظ حقوق کی صورتحال کے بارے میں رائے صادر کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری توجہ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی حالیہ رپورٹ پر مبذول کرائی گئی جو پھر ایک بار ہندوستان، اس کے دستور اور اس کے سماج کو مناسب طور پر سمجھنے میں ناکام ہوئی ہے۔ ہندوستان مضبوط جمہوری اصولوں پر مبنی لکچدار ہمہ جہت سماج ہے۔

ہندوستانی دستور اپنے تمام شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے جن میں مذہب کی آزادی کا حق شامل ہے۔ حکومت کسی بھی بیرونی تنظیم کو ہندوستانی شہریوں کے دستوری طور پر محفوظ حقوق کے بارے میں رائے زنی کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ ہم ایسی رپورٹ کا کوئی نوٹ نہیں لیتے۔ وہ اس امریکی رپورٹ پر ردعمل ظاہر کررہے تھے جس نے کہا کہ 2015ء میں ہندوستان میں مذہبی رواداری کی صورتحال ابتر ہوئی اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ امریکی کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں ہندوستانی حکومت پر زور دیا کہ ایسے عہدیداروں اور مذہبی رہنماؤں کی سرعام سرزنش کریں جو مذہبی برادریوں کے تعلق سے اہانت آمیز بیانات دیتے ہیں۔ اس امریکی کمیشن کے ارکان کو ہندوستانی حکومت نے رواں سال کے اوائل اس بنیاد پر ویزے جاری نہیں کئے کہ مذہبی آزادی کے دستور میں ضمانت ہے اور کسی بھی بیرونی تیسرے فریق کو اس معاملہ میں مداخلت کرنے، تبصرہ کرنے یا اس ضمن میں تحقیقات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہیکہ اقلیتی برادریاں بالخصوص عیسائی، مسلمان اور سکھوں کو زیادہ تر ہندو قوم پرست گروپوں کے ہاتھوں دھمکانے، ہراساں کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کے متعدد واقعات کا سامنا ہوا ہے۔ یو ایس سی آئی آر ایف نے مزید الزام عائد کیا کہ برسراقتدار بی جے پی خاموشی سے ان گروپوں کی تائید کرتی ہے اور کشیدگیوں کو مزید بڑھانے کیلئے مذہبی اعتبار سے انتشار پسند زبان استعمال کرتی تھی۔