مذاکرات کی منسوخی

بیٹھ جا چین سے ذہن پر زور دے
گمشدہ فائلوں کو مسلسل نہ ڈھونڈ
مذاکرات کی منسوخی
ہند۔ پاک معتمدین خارجہ سطح کی بات چیت کو منسوخ کردینا افسوسناک ہے ۔ پڑوسی ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو وسعت دینے کے عزم کے ساتھ حلف لینے والے وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے وزیراعظم کو حلف برداری تقریب میں مدعو کر کے یہ پیام دیا تھا کہ وہ پڑوسی ملکوں کے بارے میں خوشگوار موقف رکھتے ہیں۔ 25 اگست کو ہونے والی ہند۔ پاک معتمدین خارجہ کی بات چیت کو محض اس لئے منسوخ کردیا گیا کیوں کہ پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے ان مذاکرات سے قبل جموں و کشمیر کے علحدگی پسند قائدین کو مشاورت کیلئے مدعو کیاہے ۔ پاکستانی ہائی کمشنر کے فیصلہ کو بھی ایک کمزور انتظامی صلاحیتوں کا مظہر قرار دیا جارہا ہے ۔ اسی طرح جو تلخی پیدا کرنے کی غلطی کی جاتی ہے تو اس سے اندرون ملک بعض مخالف حکومت یا مخالف امن عناصر کے ایجنڈہ میں کامیابی ملتی ہے ۔ پاکستان اس وقت اندرون ملک مسائل اور اپوزیشن کے شدید احتجاج سے سلگ رہا ہے بلکہ جمہوری طرز سے منتخب نواز شریف حکومت کو بیدخل کرنے کیلئے بدامنی کی کیفیت پیدا کردی گئی ہے ایسے میں پاکستان کے ذمہ دار افراد پڑوسی ملکوں کے ساتھ خاص کر ہندوستان کے معاملہ میں اپنی کمزور پالیسیوں اور کمزور نظرکا مظاہرہ کریں گے تو ہر دو کیلئے مناسب نہیں ہوسکتے۔ اپنے سخت گیر عناصر سے پریشان حکومت پاکستان کو سرکاری سطح کے کاموں میں مداخلت کی اجازت نہیں دینی چاہئے ۔ اسی طرح نریندر مودی حکومت بھی سخت گیر ہندوتوا عناصر کی بنیادوں پر قائم ہوتی ہے تو اسے بھی اپنے شدید سخت گیر موقف رکھنے والے عناصر کو مداخلت کی اجازت نہیں دینی چاہئے کیوں کہ اس وقت دونوں ملکوں کی حکومتوں کو اپنے اپنے سخت گیر عناصر کی ہدایات کے مطابق چلایا جائے تو مسائل جوں کے توں برقرار رہیں گے بلکہ اس میں مزید شدت و خطرات کا شبہ پیدا ہوگا ۔ سابق میں اٹل بہاری واجپائی نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے بات چیت کا ایک فریم تیار کیا تھا اس کا اعادہ حال ہی میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے بھی کیا ہے لیکن پیر کے دن پاکستانی ہائی کمشنر کی جانب سے کشمیری علحدگی پسندوں کو مشاورت کیلئے مدعو کرنے کے فیصلہ نے مودی حکومت کے اندر چند کٹر قسم کے قائدین کو بات چیت منسوخ کرنے کا خیال آیا اور اس طرح حکومت کا مضبوط قدم داخلی طور پر کمزور بنادیا گیا ۔ جس حکومت نے سارک ملکوں کے تمام قائدین کو دوستی امن ،معاشی تعلقات ترقی ،خوشحالی کا پیام دیا تھا اس نے ہی اب ملک کے رکن ملک پاکستان کے ساتھ بات چیت منسوخ کردی ہے تو اس کا مطلب یہی اخذکیا جاسکتا ہے کہ مودی حکومت نے سارک ملکوں کو بھی اپنی پسندنا پسند کے خانوں میں تقسیم کردیا ہے ۔ معتمد خارجہ ہند سجاتا سنگھ کا یہ بیان کہ پاکستانی ہائی کمشنر کی جانب سے کشمیری علحدگی پسندوں کو مدعو کرنا گویا ایسا ہی معاملہ ہے کہ پاکستان واضح طور پر ہندوستان کے داخلی امور میں مداخلت کررہا ہے جو ہندوستان کیلئے نا قابل قبول ہے ۔ کشمیری قائدین سے پاکستانی سفیروں یا نمائندوں کی بات چیت کوئی نئی نہیں ہے اس سے قبل بھی ایسے مشاورتی اجلاس منعقد ہوئے ہیں مگر حکومت ہند نے کوئی خاص اعتراضات نہیں اٹھائے ۔ سمجھا جارہا ہے کہ پاکستانی ہائی کمشنر کی کشمیر کے حریت قائدین سے بات چیت سے مودی حکومت کی تعمیری سفارتی کوششوں کی اہمیت کم کم کیا ہے ۔ مودی حکومت کے کارندوں کا یہ سوچنا کہ پاکستان نے کشمیری قائدین سے بات چیت کر کے غلطی کی ہے تو یہ اس کی ایک کمزور سوچ اور کمزور سفارتی ڈپلومیسی کا نتیجہ ہے ۔ اگر مودی حکومت پاکستان سے بات چیت منسوخ کرنے اپنے فیصلہ کو جراء ت مندانہ خیال کرتی ہے تو یہ بد بختانہ بات ہے ۔ یہاں جو مسائل ہیں اس کو حل کرنے کیلئے پرامن دوستانہ و خوشگوار ماحول پیدا کرنے کی جراء ت مندانہ کوشش کی ضرورت ہے اس کے برعکس ناکامیوں کو گلے لگانے والا فیصلہ کر کے اسے جراء ت مندانہ قدم کہا جائے تو ذہنی کمزوری کا نتیجہ ہے ۔ بی جے پی حکومت کی غیر شفاف اور مبہم خارجہ پالیسی اسی وقت ظاہر ہوئی تھی جب نریندر مودی نے اپنے پہلے بیرونی دورہ کا آغاز کیا تھا ۔ ہندوستان کے دو ہندو پڑوسی ملکوں بھوٹان اور نیپال کا دورہ نریندر مودی کی خارجہ پالیسیوں میں جانبداری کا عنصر ظاہر ہوا تھا تاہم پاکستان کے ساتھ بات چیت کا معاملہ سارک کے رکن ممالک سے وابستہ تعلقات سے ہٹ کر ہے ۔ پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے روابط کو چھوٹی چھوٹی باتوں کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا ۔ بات چیت کو منسوخ کرنے کا فیصلہ امن پیشرفت کی کوشش کیلئے شدید دھکہ ہے ۔ مذاکرات کی منسوخی کیلئے حکومت ہند کئی وجوہات بیان کرسکتی ہے لیکن گذشتہ 27 مئی کو وزیر اعظم مودی اور وزیر اعظم نواز شریف کی ہوئی گرمجوشانہ ملاقات کے بعد ہندوستان کا موقف اس طرح برعکس ہوجائے گا اس کی توقع نہیں تھی۔