مدینہ ایجوکیشن سوسائٹی کی جائیداد اور ادارے وقف بورڈ کی تحویل میں

منشائے وقف کی خلاف ورزی کا الزام، اسپیشل آفیسر وقف بورڈ شیخ محمد اقبال کی پریس کانفرنس
حیدرآباد۔/15جنوری، ( سیاست نیوز) وقف بورڈ نے ایک اہم کارروائی کرتے ہوئے مدینہ ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت موجود تمام اوقافی جائیدادوں اور اس کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں کو راست طور پر اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ اس سلسلہ میں اسپیشل آفیسر وقف بورڈ و کمشنر اقلیتی بہبود شیخ محمد اقبال نے آج شام پریس کانفرنس میں تفصیلات کا اعلان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مدینہ ایجوکیشن سوسائٹی کے علاوہ علاء الدین ٹرسٹ کے تحت جائیدادوں کو بھی بورڈ کی تحویل میں لے لیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں ادارے نہ صرف منشائے وقف کی خلاف ورزی کے مرتکب تھے بلکہ انہوں نے وقف قانون کی بھی صریح خلاف ورزی کی۔ ان دونوں اداروں کے ذمہ داروں کے خلاف وقف ایکٹ کے علاوہ آئی پی سی کے تحت مقدمات درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وقف بورڈ کے متعلقہ عہدیداروں نے آج مدینہ ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت چلنے والے اداروں کو پہنچ کر تحویل میں لینے کی کارروائی مکمل کی۔ انہوں نے بتایا کہ مجلس شوریٰ دستی پارچہ بافی حرمین شریفین کے تحت یہ جائیدادیں ہیں اور منشائے وقف کے مطابق اس کی آمدنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں بافندوں کی امداد کیلئے استعمال کی جانی ہیں۔ تاہم سعودی عرب میں بافندوں کی عدم موجودگی کے باعث اس کی آمدنی کو تعلیمی اغراض پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

شیخ محمد اقبال نے بتایاکہ 1997ء میں وقف جائیدادوں کا جائزہ لینے والی ایوان کی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سوسائٹی کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی بعد میں وقف بورڈ کی جانب سے حفیظ صدیقی اسپیشل گریڈ ڈپٹی کلکٹر کے ذریعہ اس معاملہ کی تحقیقات کرائی گئیں۔ انہوں نے 7اگسٹ 2003ء کو اپنی رپورٹ پیش کردی جس کے بعد سوسائٹی کو وجہ نمائی نوٹس جاری کی گئی لیکن اس کا جواب اطمینان بخش نہیں رہا۔ ان اوقافی جائیدادوں کو تحویل میں لینے کے سلسلہ میں ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ درج کیا گیا اور ہائی کورٹ نے اس مقدمہ کی حالیہ سماعت میں وقف بورڈ سے سوال کیا ہے کہ تحقیقاتی افسر کی رپورٹ پرگزشتہ دس برسوں میں کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ اس مقدمہ کی آئندہ سماعت 27جنوری کو مقرر ہے۔ شیخ محمد اقبال نے بتایا کہ 25نومبر 2013ء کو وقف بورڈ نے قرارداد منظور کرتے ہوئے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تاکہ مدینہ ایجوکیشن سوسائٹی کی عمارتوں کے کرایہ میں اضافہ کیا جاسکے۔ تمام فائیلوں کا جائزہ لینے کے بعد اسپیشل کمشنر وقف بورڈ اس نتیجہ پر پہنچے کہ سوسائٹی کی جانب سے قواعد کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔

انہوں نے بتایاکہ سوسائٹی کے سکریٹری نے خود کو بحیثیت متولی پیش کیا اور پھر وہی ان عمارتوں کے کرایہ دار بھی بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ ان عمارتوں اور تعلیمی اداروں کو تحویل میں لینے کے بعد وقف بورڈ اس کا انتظام دیکھے گا۔ تعلیمی اداروں کے معیار کو برقرار رکھتے ہوئے تعلیم کا انتظام جاری رہے گا۔ انہوں نے بتایا کہ سوسائٹی کے تحت پانچ مقامات پر جائیدادیں موجود ہیں۔ شیخ محمد اقبال نے کہا کہ ان عمارتوں سے وقف بورڈ کو سالانہ کم از کم 2کروڑ سے زاید کی آمدنی ہونی چاہیئے لیکن سوسائٹی نے جملہ آمدنی ایک لاکھ 69ہزار 671 روپئے ظاہر کرتے ہوئے بورڈ کو صرف 11877 روپئے وقف فنڈ ادا کیا ہے۔ 2005ء میں وقف بورڈ کو 5226 روپئے ادا کئے گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس معاملہ میں ایوان کی کمیٹی نے اسوقت کے بعض عہدیداروں کے خلاف بھی کارروائی کی سفارش کی ہے جن میں محمد صدیقی سکریٹری وقف بورڈ، محمد محمود ڈپٹی سکریٹری وقف بورڈ، کمال الدین علی خاں سکریٹری وقف بورڈ اور لائق علی خاں اسپیشل آفیسر وقف بورڈ شامل ہیں۔ شیخ محمد اقبال نے کہا کہ ان سابق عہدیداروں کے خلاف کارروائی کے سلسلہ میں قانونی رائے حاصل کی جارہی ہے۔