سمجھ نہیں آتی ‘ وفا کریں تو کس سے کریں وصی
مٹی سے بنے یہ لوگ ‘ کاغذ کے ٹکڑوں پہ بک جاتے ہیں
مدرسوں کے تعلق سے زہر افشانی
جس وقت سے مرکز میں نریندر مودی حکومت برسر اقتدار آئی ہے ملک میں نفرت انگیز مہم نے شدت اختیار کرلی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت نے نفرت پھیلانے والی تنظیموں اور افراد کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے بلکہ انہیں ہدایت کے ساتھ ایسا کرنے کو کہا گیا ہے ۔ سماج کے امن پسند اور سکیولر ذہنیت کے حامل افراد اور گوشے اس مہم پر فکر مند ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اس مہم کو روکا جائے جو سماج کے دو اہم طبقات کے مابین منافرت کو ہوا دے رہی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں ملک کے دو اہم طبقات کے مابین خلیج پیدا ہوتی جا رہی ہے اور یہ ملک کیلئے اچھی علامت نہیں کہی جاسکتی ۔ نریندر مودی حکومت کے اقتدار پر آنے کے بعد سے یہ کوششیں بڑھ گئی ہیں کہ سماج میں منافرت پھیلائی جائے تاکہ بعض حلقوں کے مفادات کو پورا کیا جاسکے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے یہ تک کہدیا تھا کہ اگر فرقہ وارانہ کشیدگی کا سلسلہ جاری رہا تو اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا اور وہ اتر پردیش میں اقتدار حاصل کریگی ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نفرت انگیز مہم ایک منظم منصوبہ اور سازش کے تحت شروع کی گئی ہے جس کا مقصد سماج میں منافرت پھیلاتے ہوئے بی جے پی کے سیاسی عزائم کی تکمیل کرنا اور اسے اقتدار دلانے کے سوا کچھ اور نہیں ہے ۔ حالانکہ خود وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں اور سماج کے تمام طبقات کے ساتھ یکساں سلوک اور انصاف کرنے کا تیقن دیا جا رہا ہے لیکن خود ان کی پارٹی حکومت کے ان دعووں کے خلاف حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور نفرت انگیز مہم کو اسی پارٹی کے قائدین اور ارکان پارلیمنٹ ہوا دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف لو جہاد کے نام پر مہم شروع کرتے ہوئے رکن پارلیمنٹ یوگی آدتیہ ناتھ نے اتر پردیش میں بی جے پی کیلئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی کیونکہ وہاں ضمنی انتخابات ہونے والے تھے ۔ اب ایک اور رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے دینی مدارس کو نشانہ بنایا اور یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ ان مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جا رہی ہے ۔ یہ در اصل آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے منصوبہ کا حصہ ہے تاکہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ان میں احساس کمتری اور خوف پیدا کیا جائے اور اپنے ناپاک عزائم کو پورا کیا جاسکے۔
ساکشی مہاراج نے زہر افشانی کرتے ہوئے کہا کہ دینی مدارس میں دہشت گردی اور جہاد کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ ان کا ادعا تھا کہ دینی مدارس میں یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر بھی ترنگا پرچم نہیں لہرایا جاتا ۔ حکومت اسکولس کو کسی طرح کی امداد دینے میں پس و پیش کرتی ہے لیکن دینی مدارس کو امداد ضرور دی جاتی ہے ۔ ان کا ادعا تھا کہ اس طرح کی تعلیم ملک کیلئے بہتر نہیں ہے ۔ اس طرح کے ریمارکس کا مقصد در اصل سماج میں نفرت پیدا کرنا ہے تاکہ ان کے اپنے ناپاک عزائم کو پورا کیا جاسکے ۔ دینی مدارس ہندوستان میں ایک تاریخ رکھتے ہیں جنہوں نے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یکجہتی کی مثالیں قائم کی ہیں۔ یہاں طلبا و طالبات کو اچھے شہری بنانے کے علاوہ سماج کے تئیں ان کی ذمہ داریوں سے انہیں آگا ہ کیا جاتا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اکثریتی طبقہ میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے تعلق سے نفرت پیدا کی جائے تاکہ اسے اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کا موقع مل جائے ۔ لو جہاد اور دینی مدارس کے تعلق سے اس طرح کے ریمارکس کے ذریعہ در اصل یہ لوگ حکومت کی ناکامیوں اور بڑھتی ہوئی قیمتوں و دیگر مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ یہ الزامات سراسر بے بنیاد اور من گھڑت ہیں اور یہ ہندوستانی سماج کیلئے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے اچھے نہیں کہے جاسکتے ۔ ان کا سلسلہ روکتے ہوئے ایسے ریمارکس کرنے والوں کے خلاف کارروائی ضروری ہوگئی ہے ۔
شر انگیز فرقہ پرست قائدین مدرسوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس کی ملک بھر میں پھیلی ہوئی لاکھوں شاکھاؤں میں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے ۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ہتھیار چلانے کی تربیت دی جاتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ملک میں پیش آئے بے شمار دہشت گردانہ حملوں میں آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ اس تعلق سے خاموشی اختیار کرتے ہوئے مسلمانوںاور دینی مدارس کو نشانہ بنانے کی مہم کو شدت کے ساتھ آگے بڑھانا در اصل ایک ناپاک سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد مسلمانوں میں خوف کا احساس پیدا کرنا ہے ۔ ملک کے معروف قانون داں فالی ایس نریمان نے بھی ایک لکچر میں کہا تھا کہ مودی حکومت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم میں شدت پیدا ہوگئی ہے ۔ حکومت کو اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ایسا کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنا چاہئے ۔