سیدہ رضوانہ فاطمہ
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے، جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں‘‘۔ اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت والدین پر فرض قرار دی گئی ہے، اس لئے قیامت کے دن اولاد کے متعلق ان سے سوال ہوگا۔ موجودہ دور میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دینی تعلیم و تربیت کا کوئی نظم نہیں ہے، جس کی وجہ سے والدین کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو دینی ماحول فراہم کریں۔ اگر والدین بچوں کی تربیت دینی ماحول میں نہ کریں تو اس کے نتیجے میں وہ شتر بے مہار کی زندگی گزریں گے اور اگر ہم اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت دینی ماحول میں نہ کریں تو ہمیں اپنے بچوں اور بچیوں کی بے راہ روی کا شکوہ نہیں ہونا چاہئے۔
اگر ہم غور کریں تو یہ بات معلوم ہوگی کہ دنیا کا سارا نظام علم پر قائم ہے، اس کے بغیر کوئی شخص اور کوئی قوم دنیا و آخرت کی ترقی و سربلندی کا تصور تک نہیں کرسکتی۔ دنیا کی ساری معاشی، معاشرتی اور سیاسی فتوحات علم کے بل پر ہیں، ہر قسم کی سربلندیاں علم سے حاصل ہوتی ہیں، علم سے بحر و بر پر قبضہ ہوتا ہے، علم سے بجلی اور فضا پر تسلط قائم ہوتا ہے۔ آج دنیا کی ساری مادی ترقیاں علم ہی کی بدولت ہیں۔ علم، چاہے کوئی ہو بذات خود برا نہیں، ہاں! اس کا استعمال اگر غلط طورپر کیا جائے تو برا ہے۔ علم ایک ہتھیار کے مانند ہے، اگر شریف آدمی کے پاس ہوگا تو وہ اس سے اپنی اور اپنے اہل و عیال اور معاشرے کی جان و مال کا محافظ ہوگا۔ اگر شریر کے قبضے میں ہوگا تو وہ لوگوں کی گردنیں اڑائے گا اور دنیا میں فساد برپا کرے گا۔
اعلی قدر معاشرہ کا قیام، شریعت مطہرہ کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے۔ کسی بھی معاشرہ میں اخلاقی گراوٹ اور راہ حق سے بھٹکنے کے کئی اسباب میں سے ایک اہم سبب مردوزن کا آپس میں بے محابا اور بلاتکلف اختلاط بھی ہے۔ یہ وبا ایسی ہے، جس کا اثر نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔
آج ہمارا معاشرہ جس اخلاقی انحطاط کا شکار ہے، اس کا اگر فوری سدباب نہ کیا جائے تو ایک نہ ایک دن ہمیں ناقابل حل مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم معاشرتی خرابیوں کا جائزہ لیں اور ان کو دور کرنے کی دیانتدارانہ کوشش کریں۔
اللہ کے حبیب علیہ الصلوۃ والسلام نے مسلم خواتین کو مسجد میں نماز کے لئے آنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی، لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور خلافت میں عورتوں کو مسجدوں میں آنے اور عیدگاہ جانے سے منع فرمادیا۔ بعض عورتوں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا ’’اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرماتے کہ اس زمانے کی عورتیں کس صفت پر ہیں تو مساجد میں نہ آنے دیتے‘‘۔ غور کیجئے کہ وہ زمانہ خیر و بھلائی سے بھرپور تھا، جب کہ اس کے برعکس یہ زمانہ فساد و شر پر مبنی ہے، یعنی (فساد کے سبب) جب مسجد میں آنے کی اجازت نہیں تھی تو مخلوط اسکولوں، کالجوں، کمپنیوں اور اس طرح کے دیگر مقامات جانے کی اجازت کیونکر ہوسکتی ہے۔
اللہ کے حبیب پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے مردوں اور عورتوں کے لئے راستہ سے گزرنے کے احکام بھی صادر فرمائے اور عورتوں کے لئے یہ حکم ہوا کہ وہ راستے کے کنارے سے چلیں۔ اس زمانے میں خواتین اسلام حکم کی تعمیل اس طرح کرتی تھیں کہ دیواروں سے تقریباً لگ کر چلتی تھیں۔ جب اس طرح حکم کی تعمیل ہو رہی تھی تو غور کیجئے کہ ان کی پردے کی پابندی کتنی سخت رہی ہوگی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرماکر کہ ’’علم کا حاصل کرنا مسلم مرد و عورت پر فرض ہے‘‘ عورت کے لئے تعلیم کا دروازہ مردوں کے دوش بہ دوش کھول دیا تو دوسری طرف ان کو اخلاقی تعلیم دے کر یہ بھی بتایا کہ ’’اس لحاظ سے ان کی حالت آبگینوں کی طرح ہے‘‘۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات ہم پر واضح ہوگی کہ پردے میں رہتے ہوئے بھی بہت سی خواتین اسلام علم و فضل کے اعلی درجات پر فائز ہوئیں۔فی زمانہ مخلوط تعلیمی اداروں کا بازار گرم ہے اور لڑکے و لڑکیوں کے آپسی بے محابا میل جول نے اسلامی ماحول کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ شرم وحیا جیسی عظیم چیز ختم ہوچکی ہے، اسی وجہ سے بے دینی، آزادانہ ماحول اور غلط افکار کو بڑھاوا مل رہا ہے۔ اسی طرح مردوزن کا اسپتالوں، اسکولوں، دفاتر، کاروباری اداروں اور ایجنسیوں میں ساتھ ساتھ کام کرنے سے آپسی بے تکلفی بڑھ رہی ہے۔ یہیں سے گناہوں کے دروازے کھلتے ہیں اور معاشرے میں تباہی و بربادی عام ہوتی چلی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کا اسکول، کالجس اور یونیورسٹی علحدہ ہونا ضروری ہے، کیونکہ مخلوط و مشترکہ تعلیم اسلامی قانون کے مغائر ہے۔ مشترکہ اسکولوں اور کالجوں وغیرہ کے نقصانات یہ ہیں کہ ان مشترکہ تعلیم حاصل کرنے والے بچوں میں حیا ختم ہو جاتی ہے اور ایسے خیالات فروغ پاتے ہیں، جس کا مضر اثر بچہ کے جسم کی نشوونما پر بھی ہوتا ہے اور پھر ذہنی صلاحیتیں بھی محدود ہو جاتی ہیں۔