جنتا دل سکیولر کے چیف منسٹر امیدوار ایچ ڈی کمارا سوامی نے کہا ہے کہ اگر جے ڈی ایس درکار سیٹوں پر کامیابی حاصل نہیں کر پائے گی تو ہم مضبوط اپوزیشن کا رول ادا کریں گے یا پھر دوبارہ الیکشن کی تیاری کریں گے۔ مگر ہم بی جے پی یا کانگریس کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ کمارا سوامی کے انٹرویو کے یہاں پر چند اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔
مخلوط اسمبلی کے پیش نظر آپ کانگریس یا بی جے پی کس کے ساتھ جائیں گے؟
ایسے صورت ہی پیدا نہیں ہوگی۔ میں سمجھتاہوں ہم ایک سو سیٹ پر جیت حاصل کریں گے اور ہمارے ساتھ کچھ آزاد امیدوار ہونگے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو ہم اپوزیشن میں بیٹھیں گے یا پھر دوبارہ الیکشن کی مانگ کریں گے۔ میں نے عوام سے کئی وعدے کئے ہیں ‘ میں ان وعدوں کو کانگریس یا بی جے پی کے ساتھ رہ کر پورا نہیں کرسکوں گا۔ اگر میں تازہ انتخابات کے لئے جاؤں گا تو عوام کی توقعات کے سبب مجھے فائدہ ہوگا۔
ان میں سے کون سب سے بڑا دشمن ہے؟
ایک سو سیٹوں پر ہمارے راست مقابلہ کانگریس سے ہے۔ ساٹھ سیٹوں پر نارتھ کرناٹک میں سہ رخی مقابلہ ہے‘ یہ مقابلہ یا تو کانگریس بی جے پی میں ہے تاپھر جے ڈی ایس بی جے پی یا کانگریس کے درمیان میں مقابلہ ہے۔ میں ماضی کے الیکشن سے سبق سیکھا ہے۔ میں 224کے بجائے 150سے160سیٹوں پر اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں۔ اس کا منافع ہمیں اس بار ہوگا۔
سابق میں آپ نے بی جے پی کے ساتھ حکومت تشکیل دی ہے
ہمیں بی جے پی او رکانگریس کے ساتھ2004اور 2006میں حکومت بنانے کا بہترین تجربہ ہے ۔ اس وقت بی جے پی میری وجہہ سے اقتدار میں ائی تھی۔ کانگریس کے مقابلے میں ان کا ساتھ اطمینان بخش رہا۔ مگر اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں ہمارا بی جے پی پر کوئی انحصار نہیں ہے۔
بی جے پی کے ساتھ اقتدار میںآنے کے دوماہ بعد انہوں نے اس ایم ایل سی کے ریعہ مجھ پر کانکنی مافیا سے ایک سو پچا س کروڑ لینے کی الزامات عائد کئے۔ پھر ایک منسٹر نے پولیس اسٹیشن میں میرے خلاف شکایت کی کہ میں اس کو مارنے کے لئے سپاری دی ہے۔
وہ لوگ کرناٹک میں طاقتور ہوئے اور میری مد د سے معاشی طور پر مضبوط بھی ہوئے۔ اب وہ کانگریس کی طرح برتاؤ کررہے ہیں۔
یہ الیکشن کس طرح قومی سیاست میں اہم رول ادا کرسکتا ہے
یہ 2019سے زیادہ حساس ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں ‘ قومی سیاسی جماعتوں کے لئے بھی۔ اگر ہم بی ایس پی کے ساتھ ملکر اپنے دم پر اکثریت حاصل کرتے ہیں ‘ میں سمجھتاہوں بڑے پیمانے پر سیاسی جھٹکے لگیں گے۔
سابق میں کئی مرتبہ مرکز کی سیاست کرناٹک سے تبدیل ہوئی ہے۔ یہاں تک کے سابق وزیراعظم وی سنگھ نے بھی پوری طرح کرناٹک سے کامیاب ہوئے تھے۔
اس الیکشن میں بی ایس پی کے ساتھ اپ کے اتحاد کی اہمیت کیا ہے؟
اس اتحاد سے 2.3فیصد ووٹوں میں اضافہ ہوگا۔ چیف منسٹر سدارامیہ نے دلت کمیونٹی کے کانگریس لیڈرس کو نظر انداز کردیاہے۔ اب وہ تصوئیر میں بھی نہیں ہیں‘ چاہئے وہ ملکارجن کھرگے ہوں یا پھر جی پرامیشوارا یا سرینواس پرساد ہوں یہ تمام دلت کی شناخت ہیں۔ دلت ووٹوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا ہماری پارٹی کے لئے یہ ایک بہترین موقع ہے۔ کئی حلقوں میں بی ایس پی کے ایک تا دوہزار ووٹ موجود ہیں۔
سال2013میں اس نے 38اسمبلی حلقوں میں تین سو سے تین ہزار ووٹوں کی کمی سے شکست کھائی تھی