محکمہ اقلیتی بہبود کو مختلف پروگرامس کے لیے بجٹ کی عدم اجرائی

حیدرآباد۔/4جون، ( سیاست نیوز) تلنگانہ ریاست کے یوم تاسیس کی تقاریب سے اقلیتی بہبود کا بجٹ خطرہ میں پڑ چکا ہے۔ حکومت نے محکمہ اقلیتی بہبود کو مختلف تہذیبی اور ثقافتی پروگراموں کے انعقاد کی ہدایت تو دے دی لیکن اس کیلئے درکار بجٹ جاری نہیں کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت نے محکمہ اقلیتی بہبود کو ہدایت دی کہ مختلف اداروں کو اقلیتی بہبود کے تحت جاری کئے گئے بجٹ سے ان پروگراموں کا انعقاد عمل میں لائے۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ محکمہ اقلیتی بہبود نے 11مختلف تہذیبی اور ثقافتی پروگراموں کیلئے ایک کروڑ روپئے کی اجرائی کی حکومت سے سفارش کی لیکن حکومت نے ابھی تک صرف 50لاکھ روپئے ہی جاری کئے ہیں جو ان پروگراموں کیلئے انتہائی ناکافی ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ محکمہ نے 11پروگراموں کے انعقاد کے سلسلہ میں ٹنڈرس طلب کئے تھے اور 64لاکھ روپئے میں ٹنڈر منظور کیا گیا۔ ٹنڈر گذار کو ابھی تک مکمل رقم جاری نہیں کی جاسکی جس کا کام ہر پروگرام کا اسٹیج تیار کرنا اور دیگر انتظامات کی تکمیل ہے۔ حکومت نے مجموعی طور پر 50لاکھ روپئے ہی جاری کئے ہیں جس کے سبب ٹنڈر گذار کو مکمل رقم جاری نہیں کی جاسکی اور وہ محکمہ پر رقم کی اجرائی کیلئے اصرار کررہا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق تمام پروگراموں پر خرچ 2کروڑ سے زائد تک ہوسکتا ہے لیکن حکومت یہ رقم جاری کرنے کیلئے تیار نہیں۔ محکمہ اقلیتی بہبود حکومت سے مزید 25لاکھ روپئے کے حصول کی کوشش کررہا ہے تاکہ ٹنڈر گذار کو رقم جاری کی جاسکے۔ اگر حکومت یہ رقم جاری نہیں کرتی تو اقلیتی بہبود کے ادارے اپنے بجٹ کو خرچ کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ حکومت نے بھی زبانی طور پر عہدیداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اقلیتی بہبود کا بجٹ استعمال کریں اور حکومت اس کی پابجائی بعد میں کردے گی۔ گذشتہ کئی برسوں کے تجربات کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ کسی بھی سال حکومت نے اقلیتی بہبود کیلئے مختص بجٹ کو مکمل طور پر خرچ نہیں کیا۔ گزشتہ سال تقریباً 700کروڑ روپئے سرکاری خزانہ میں واپس ہوچکے ہیں۔ جاریہ مالیاتی سال حکومت نے پہلے سہ ماہی کا مکمل بجٹ ابھی تک جاری نہیں کیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اقلیتی بہبود کے بجٹ سے تہذیبی پروگراموں کے انعقاد کے حق میں ہے تاکہ سرکاری خزانہ پر بوجھ کم کیا جاسکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقلیتی بہبود کا بجٹ حکومت کے تشہیری اور ثقافتی پروگراموں کیلئے ہے؟۔ اقلیتی بہبود کی مختلف اسکیمات کیلئے ابھی تک مناسب بجٹ جاری نہیں کیا گیا جن میں اسکالر شپ اور فیس باز ادائیگی جیسی اہم اسکیمات شامل ہیں۔ شادی مبارک اسکیم کے ہزاروں درخواست گذار امدادی رقم سے محروم ہیں۔ دوسری طرف حکومت اپنے تشہیری پروگراموں کیلئے اقلیتی بہبود کا بجٹ خرچ کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اقلیتی بہبود کے بجٹ کے بجائے ان پروگراموں کیلئے خصوصی بجٹ جاری کرے۔ بتایا جاتا ہے کہ ’ شب غزل ‘ کے سلسلہ میں جس بیرونی فنکار کو مدعو کیا گیا اس کی فیس اور دیگر اخراجات تقریباً 21لاکھ روپئے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر پروگراموں کیلئے بھی ملک کے مختلف حصوں سے فنکاروں اور شعراء کو مدعو کیا گیا جن کی فیس ہزاروں روپئے ہے۔ مختلف پروگراموں میں حصہ لینے والے شعراء اور ادیبوں کو بھی مناسب رقم دی جارہی ہے اور کئی افراد ایسے ہیں جو ایک سے زائد پروگراموں میں شامل ہیں اور انہیں ہر پروگرام کی فیس علحدہ ادا کی جائے گی۔ کیا یہ اردو زبان کی ترقی و ترویج کے نام پر بیجا اسراف نہیں ہے؟ کیا اقلیتی بہبود کے بجٹ کو تہذیبی پروگراموں پر صرف کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب حکومت کو دینا ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ مختلف پروگراموں کے سلسلہ میں مقامی افراد کو نظرانداز کرتے ہوئے مخصوص گروپ سے تعلق رکھنے والے سفارشی اور عہدیداروں سے قربت رکھنے والوں کو شامل کیا گیا۔ تلنگانہ حکومت اقلیتی بہبود کے بجٹ کو مکمل خرچ کرنے کا بارہا دعویٰ کررہی ہے لیکن بجٹ کی اجرائی کی رفتار اور جشن تلنگانہ پر اقلیتی بہبود کے بجٹ کے خرچ کو دیکھتے ہوئے یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ جاریہ سال بھی اقلیتی بہبود کا بجٹ مکمل تو کجا 50فیصد بھی خرچ نہیں ہوپائے گا۔ حکومت کے اس فیصلہ پر اگرچہ عہدیدار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں لیکن اس فیصلہ سے اقلیتی بہبود کی اسکیمات پر موثر عمل آوری ممکن نہیں ہوپائے گی۔