محنت و مشقت کی برکات

سید محمد افتخار مشرف

سورۃ النمل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جب کہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے ؟ اور کون ہے جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خدا بھی یہ کام کرنے والا ہے ؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو اور وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تم کو راستہ دکھاتا ہے؟ اور کون اپنی رحمت کے آگے ہواؤں کو خوش خبری لے کر بھیجتا ہے؟‘‘۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس آدمی کو کوئی سخت حاجت پیش آئی اور اس نے اسے بندوں کے سامنے رکھا اور ان سے مدد چاہی تو اسے اس مصیبت سے مستقل نجات نہیں ملے گی۔ اور جس آدمی نے اسے اللہ کے سامنے رکھا اور اس نے دعا کی تو پوری امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی یہ حاجت جلد ہی ختم کردے گا یا کچھ تاخیر سے خوشحالی دے کر‘‘۔ (ابوداؤد و ترمذی)
حضرت قراسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ’’میں اپنی ضرورت کے لئے لوگوں سے سوال کرسکتا ہوں؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’جہاں تک ہوسکے سوال نہ کرو اور اگر تم سوال کے لئے مجبور ہوجاؤ تو اللہ کے نیک بندوں سے کرو‘‘۔ (ابوداؤد و نسائی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص ضروریات سے مجبور ہوکر نہیں، بلکہ زیادہ مال و دولت حاصل کرنے کے لئے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے اور ان سے بھیک مانگتا ہے، یعنی مانگ کر وہ جو کچھ حاصل کرے گا آخرت میں اس کے لئے دوزخ کا انگارہ بن جائے گا‘‘۔ (مسلم)
حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کسی حاجت مند آدمی کا یہ رویہ کہ وہ رسی لے کر جنگل جائے اور محنت و مشقت سے لکڑیوں کا ایک گٹھا اپنی کمر پر لادکر لائے اور بیچے۔ اس طرح اللہ کی توفیق سے وہ سوال کی ذلت سے اپنے کو بچالے، اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے، پھر خواہ وہ اس کو دیں یا نہ دیں‘‘ (بخاری شریف) اس سے مراد محنت و مشقت سے کمائے ہوئے رزق میں برکات ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار میں سے ایک غریب شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی حاجت بیان کرکے آپﷺ سے کچھ مانگا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمہارے گھر میں کوئی چیز بھی نہیں ہے؟‘‘۔ اس نے کہا: ’’بس ایک کمبل ہے، جس کا کچھ حصہ ہم بچھا لیتے ہیں اور کچھ اوڑھ لیتے ہیں اور ایک پیالہ ہے، جس سے ہم پانی پیتے ہیں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’یہی دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ‘‘۔ اس شخص نے وہ دونوں چیزیں لاکر آپﷺ کی خدمت میں پیش کردیں۔ آپﷺ نے وہ کمبل اور پیالہ ہاتھ میں لے کر نیلام کے انداز میں حاضرین سے کہا: ’’کون ان دونوں چیزوں کو خریدنے کے لئے تیار ہے؟‘‘۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ ’’میں ایک درہم کے بدلے خریدنے پر آمادہ ہوں‘‘۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’کون ہے جو ایک درہم سے زیادہ کی بولی دیتا ہے؟‘‘۔ یہ بات آپﷺ نے دو یا تین دفعہ فرمائی، اس پر ایک دوسرے صاحب نے دو درہم دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ آپﷺ نے اس سے دو درہم لے کر یہ دونوں چیزیں دے دیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دو درہم اس انصاری کو دے کر فرمایا: ’’ان میں سے ایک درہم کا کھانے کا سامان خرید کر بال بچوں کو دے دو اور دوسرے درہم کی کلہاڑی خریدکر میرے پاس آؤ‘‘۔ اس انصاری نے ایسا ہی کیا اور کلہاڑی لے کر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس کلہاڑی میں لکڑی کا ایک مضبوط دستہ لگایا اور فرمایا: ’’جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور بیچو اور اب پندرہ دن تک میں تم کو نہ دیکھوں‘‘۔ چنانچہ وہ شخص چلاگیا اور آپﷺ کی ہدایت کے مطابق لکڑیاں بیچتا رہا۔ پھر وہ ایک دن آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بتایا کہ ’’میں نے اپنی محنت و مشقت سے اب تک دس درہم کما لئے ہیں، جن میں سے کچھ کاکپڑا اور کچھ کا غلہ خرید چکا ہوں‘‘۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: ’’اپنی محنت سے یہ کمانا تمہارے لئے اس سے بہت بہتر ہے کہ قیامت کے دن لوگوں سے مانگنے کا داغ تمہارے چہرے پر ہو‘‘۔ پھر آپﷺ نے حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’سوال کرنا صرف تین قسم کے لوگوں کے لئے درست ہے، ایک وہ آدمی جسے فقر و فاقہ نے زمین سے لگا دیا ہو اور بالکل لاچار و بے بس کردیا ہو۔ دوسرے وہ جس پر قرض یا کسی تاوان کا اتنا بھاری بوجھ ہو، جو اس کی برداشت سے باہر ہو اور تیسرے وہ جسے خون بہا ادا کرنا ہو اور اسے ادا نہ کرسکتا ہو‘‘۔ (ابوداؤد)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’دوسروں کے سامنے سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا موجب ذلت ہے اور ہمیشہ اس پر قائم رہنے سے انسان میں بے حیائی اور بے مروتی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی لئے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت سختی کے ساتھ اس ذلیل کام سے منع فرمایا ہے‘‘۔