طلاق ثلاثہ کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواستوں کی مخالفت: پرسنل لاء بورڈ
نئی دہلی ۔27 مارچ ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے آج سپریم کورٹ میں واضح کیاہے کہ طلاق ثلاثہ ، نکاح حلالہ اور مسلمانوں میں کثرت ازدواج کو چیلنج کرتے ہوئے دائر کی جانے والی درخواستیں نا قابل قبول ہیں ، کیوں کہ یہ مسائل عدلیہ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے ۔ بورڈ نے کہاکہ محمڈن لاء کا جواز قرآن مجید اور اسی ذرائع کی بنیاد پر ہے ۔ اسے دستور کی ایک مخصوص گنجائش کی بنیاد پر آزمایا نہیں جاسکتا ۔ بورڈ نے کہاکہ ان مسائل کی دستوری بنیادوں پر تشریح سے قبل عدالتی پابندی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ بورڈ نے بتایا کہ مختلف درخواستوں کے ذریعہ جو مسائل اُٹھائے گئے ہیں وہ قانون کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور چونکہ طلاق ایک نجی معاملہ ہے اسے بنیادی حقوق کے دائرہ کار میں شامل نہیں کیا جاسکتا ۔ بورڈ نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ درخواستیں غلط معلومات پر مبنی ہیں اور مسلم پرسنل لاء کو سمجھے بغیر اسے چیلنج کیا گیا ہے ۔ بورڈ نے یہ دلیل پیش کی کہ دستور نے ہر مذہبی طبقہ کو یہطمانیت دی ہے کہ وہ اپنے مذہبی اُمور کی پابندی کیلئے آزاد ہے ۔ چنانچہ عدالت میں پیش کی جانے والی درخواستیں کوئی ٹھوس جواز نہیں رکھتیں اور درخواست گذاروں نے نجی فریقین کے خلاف بنیادی حقوق کے اطلاق پر زور دیاہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ درخواست گذار عدالتی احکامات کے خواہاں ہیں جبکہ یہ دفعہ 32 کے دائرہ کار سے باہر ہے ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سپریم کورٹ میں تحریری درخواست داخل کرتے ہوئے اپنا یہ موقف واضح کیا ۔ ان مسائل پر کی جانے والی درخواستوں بشمول طلاق کے معاملات میں مسلم خواتین کے ساتھ صنفی امتیاز کے الزامات کی مخالفت کرتے ہوئے بورڈ نے کہاکہ یہ تمام نکات مقننہ پالیسی کا حصہ ہے اور عدلیہ کے دائرہ کار میں شامل نہیں۔ دستور میں دی گئی مذہبی ، اظہارخیال کی آزادی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مذہبی اُمور کے معاملے میں ہر شخص کو یہ طمانیت دی گئی ہے کہ وہ مذہبی احکامات پر عمل کرے ۔ بورڈ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ پرسنل لاء کو کسی مقننہ یا مسابقتی ادارے یا کسی اور ذرائع سے اخذ نہیں کیا گیا ہے بلکہ محمڈن لاء کی بنیاد قرآن مجید اور اس کے احکامات ہیں۔ چنانچہ اسے دستور کے حصہ سوم کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور اس میں کسی طرح کی بھی تبدیلی ممکن نہیں۔ عدالت سے خواہش کی گئی ہے کہ وہ دیگر چند ممالک کو مثال بناکر پرسنل لاء میں تبدیلی کی کوشش نہ کرے۔ یہ مسلم طبقہ کا ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے اور یہ بات بھی ملحوظ رکھی جائے کہ دیگر ممالک میں سماجی ۔ ثقافتی یہاں تک کہ قانونی پس منظر کا اطلاق ہندوستان میں نہیں ہوسکتا ، کیوں کہ یہاں کے حالات اور یہاں کی تہذیب و ثقافت بالکل الگ ہے ۔ ایسا کوئی بھی قدم جمہوری و قانونی عمل کو تباہ کرنے کے مترادف ہوگا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں اسلام کے ماننے والوں کے ساتھ بھی یہ ناانصافی ہوگی ۔