محمد بن سلمان کا انٹرویو

اس دور کا انسان ہے الجھاؤ کا عادی
اوروں سے نہیں خود سے بھی تکرار کرے ہے
محمد بن سلمان کا انٹرویو
سیاستداں اگر نالائق نکلے تو یہ اپنے ملک کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام کے لیے بھی باعث زحمت ہوتا ہے ۔ امریکہ کو طاقتور اور سوپر پاور ملک ہونے کا گمان ہے تو یہ اس کی اپنی ترجیح کیفیت ہے لیکن اس ملک کا صدر چند ووٹوں سے اقتدار حاصل کر کے تکبر اور حسد سے بڑی ہوئی خود اعتمادی کا مظاہرہ کرے تو جگ ہنسائی ہوتی ہے ۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی حالیہ تقریر پر اجلاس میں شریک اقوام کے نمائندوں نے مضحکہ خیز جگ ہنسائی کا مظاہرہ کیا ۔ صدر ٹرمپ کے تعلق سے امریکہ میں جو رائے قائم ہورہی ہے اس کے پس منظر میں سعودی عرب کے بارے میں ٹرمپ کی رائے ضرورت سے زیادہ تکبر کی علامت سمجھی جارہی ہے ۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ سعودی عرب ہمارے بغیر یعنی امریکہ کے بغیر چند دن بھی رہ نہیں سکتا ۔ یہ بات از خود مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے پھر بھی سعودی عرب نے اس کا جواب پورے فہم و فراست سے دیا ہے ۔ سعودی عرب میں جب سے اقتدار کی تبدیلی آئی ہے خاص کر گذشتہ ایک سال سے سعودی عرب داخلی و خارجی سطح پر سرخیوں میں رہا ہے خاص کر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں اور کارروائیوں سے ساری دنیا کی توجہ اس جانب مبذول ہوگئی ہے ۔ بڑے پیمانے پر سماجی اصلاحات کا عمل شروع کرنے والے محمد بن سلمان نے صدر امریکہ ٹرمپ کے بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب امریکہ کے بغیر برسوں سے قائم تھا اور آئندہ بھی برسوں قائم رہے گا ۔ محمد بن سلمان اپنے روزمرہ کے سیاسی اور حکمرانی کے امور انجام دینے کے ساتھ قومی و بین الاقوامی میڈیا کو انٹرویو بھی دیتے آرہے ہیں ۔ انہوں نے اب تک کئی انٹرویوز دئیے ہیں اور سعودی عرب میں آنے والی تبدیلیوں سے ساری دنیا کو واقف کروایا ہے لیکن چند دن قبل بلومبرگ کو دئیے گئے انٹرویو میں انہوں نے سعودی عرب کی داخلی قوت اور عالمی اثر پذیری کے بارے میں واضح کردیا ۔ دنیا میں کسی بھی ملک کو کسی کے تابع کرنے کی کوششیں نئی نہیں ہیں لیکن صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے تکبر اور خود اعتمادی کے حدود کو عبور کرتے ہوئے جو کچھ کہا تھا اس کا مناسب جواب دیا گیا ہے ۔ شاہ سلمان نے جب سے سعودی عرب کا اقتدار سنبھالا ہے ، محمد بن سلمان کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ ایک طرح سے وہ متوازی اختیارات کی حامل اتھاریٹی کے طور پر کام کررہے ہیں اور ان کے کاموں کی ستائش بھی ہورہی ہے ۔ انہوں نے بلومبرگ کو دئیے گئے انٹرویو میں سعودی عرب کی اقتصادی پالیسی اور ٹیکس معاملے کو بھی واضح کردیا کہ 2030 تک حکومت کوئی نیا ٹیکس نہیں عائد کرے گی ۔ امریکہ کے ساتھ معاہدوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ 2 ہفتے کے اندر بہت بڑا سودا کرنے والے ہیں ۔ سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانے کی جانب قدم اٹھائے جارہے ہیں ۔ سعودی عرب میں لائی جانے والی تبدیلیوں اور اصلاحات کے عمل پر تعریفیں بھی ہورہی ہیں تنقیدیں بھی کی جارہی ہیں ۔ معاشی محاذ پر بڑی چھلانگ لگاتے ہوئے سعودی عرب کو غیر معمولی کامیابی دلانے کی کوشش ہورہی ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض بڑی طاقتیں اپنے مقاصد کی آڑ میں سعودی عرب کو کمزور ملک کے طور پر دیکھنا پسند کرتے ہیں ۔ سعودی عرب کی موجودہ تبدیلیوں کے روح رواں کو تنقیدوں کا شکار بنایا جارہا ہے ۔ سعودی عرب کے ویژن 2030 کے بارے میں ناقدین بار بار یہی سوال کررہے ہیں کہ آیا محمد بن سلمان نے جو قدم اٹھائے ہیں اس میں وہ کامیاب ہوں گے ۔ سعودی عرب کی نوجوان آبادی کے اندر نیا جوش و جذبہ فروغ دے کر انہیں روزگار ، سائنس و ٹکنالوجی سے مربوط کرتے ہوئے خوشحالی کی بلندیوں کی جانب لے جایا جارہا ہے تو اس پر شبہات کا اظہار کر کے بعض ناقدین اپنے دل کے چھالے پھوڑتے جارہے ہیں ۔ امریکی صدر کی جو کچھ رائے تھی وہ ایک سطحی سوچ یا وقتی خیال کا اظہار تھا ۔ بظاہر امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات مضبوط اور دیرینہ ہیں ۔ اس سلسلہ میں محمد بن سلمان کا بیان راست عکاسی کرتا ہے کہ بلاشبہ سعودی عرب ایک طاقت ہے اور امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات معاشی اور سلامتی تعاون کے بنیادی خطوط پر قائم و برقرار ہیں ۔ یہی بنیاد دونوں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر مضبوط بناتی ہے۔ ملکوں کے داخلی حالات میں بدلتے اور بنتے بگڑتے مناظر تو ابھرتے رہتے ہیں اس کو عجیب سی روایت کے تناظر میں دیکھنا مناسب نہیں ۔۔