مولانا غلام رسول سعیدی
حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابۂ کرام رشد و ہدایت کے پیکر اور نگاہِ فراست کے مالک تھے۔ انھوں نے فیضانِ رسالت سے تربیت پائی تھی۔ حضورﷺ پر وحی اُترنے کی کیفیت کو دیکھا تھا، رموزِ قرآن کے محرم اور اسرار وحی سے واقف تھے۔ اسی وجہ سے افراد صحابہ تعداد انبیاء کے مطابق اور ان کے اوصاف کے مظہر تھے۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے تمام صحابہ آسمانِ ہدایت کے ستارے ہیں، تم نے ان میں سے جس کو بھی مقتداء بنا لیا ہدایت پالو گے‘‘۔
سارے صحابہ ہی رسول کا اسوہ اور نبوت کی تعبیر تھے، مگر جس کو نوید فراست ملی، جس نے موافقت وحی کا مرتبہ پایا، جس کی زبان الہام و تحدیث کا مرکز بنی، وہ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پہلی امتوں میں محدث ہوتے تھے، اگر میری امت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمر ہے‘‘۔ ایک اور مرتبہ فرمایا: ’’تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے لوگ ہوتے تھے، جو نبی تو نہ تھے مگر صاحب کلام تھے۔ اس امت میں اگر کوئی ایسا ہے تو وہ عمر ہے‘‘۔ (صحیح بخاری)
مفہوم محدث کے بارے میں اہل علم کے متعدد اقوال ملتے ہیں۔ بعض نے کہا: ’’محدث، صاحب الہام کو کہتے ہیں‘‘۔ تورپشتی نے کہا: ’’محدث وہ شخص ہے، جس کی رائے صائب اور ظن صادق ہو‘‘۔ ابواحمد عسکری نے کہا: ’’جس کے قلب پر ملاء اعلیٰ سے فیضان ہو اسے محدث کہتے ہیں‘‘۔ بعض نے کہا: ’’جس کی زبان ہمیشہ نطق بالصواب کرتی ہو وہ محدث ہے‘‘۔ ابن التین نے کہا: ’’محدث صاحب فراست ہوتا ہے‘‘۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: ’’ملہم بالصواب کو محدث کہتے ہیں‘‘۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے ایک مرفوع روایت سے بتلایا: ’’محدث کی زبان سے ملائکہ کلام کرتے ہیں‘‘۔ ملا علی قاری نے کہا: ’’محدث سے مراد وہ شخص ہے، جو کثرتِ الہام کے سبب درجۂ انبیاء سے واصل ہو‘‘۔ ان تمام اقوال کا حاصل یہ ہے کہ محدث کے قلب و نظر پر ملاء اعلیٰ کا فیضان ہوتا ہے، اس کا اجتہاد صحیح، اس کا کلام صائب اور ربانی تائید سے مؤید ہوتا ہے۔
اس امت میں محدث ہے یا نہیں؟ جمہور کی رائے یہی ہے کہ ہے اور یقیناً ہے، کیونکہ جب اممِ سابقہ میں محدث ہوتے تھے تو خیر امم میں محدث کیوں نہ ہوگا۔ نیز پچھلی امتوں میں کسی ایک رسول کی شریعت کی تفہیم کے لئے تسلسل اور تواتر کے ساتھ انبیاء کرام آتے رہتے تھے۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے نبوت ختم کردی تو اللہ تعالیٰ نے نبی کی جگہ محدث کو مقرر کردیا، پس تمام اولیاء محمدیین محدث ہیں، لیکن اس گروہ کے سرخیل حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، جنھوں نے نطق رسالت سے محدث کا لقب پایا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ’’میں نے اپنے رب کی تین امور میں موافقت کی ہے‘‘۔ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: ’’تین میں حصر کی وجہ ان کی شہرت ہے، ورنہ موافقت کی تعداد پندرہ ہے‘‘۔ صاحب ’’ریاض‘‘ نے کہا: ’’ان میں سے نو لفظی، چار معنوی اور دو بطور توریہ کے ہیں‘‘۔ ابن حجر ہیتمی مکی نے کہا: ’’ایسی آیات سترہ ہیں‘‘ اور سیوطی نے تتبع کرکے ان کی تعداد بیس سے زائد تک پہنچا دی ہے۔ بعض کی تفصیل یہ ہے:
(۱) ایک مرتبہ مقام ابراہیم کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: ’’حضور! ہم مقام ابراہیم کو مصلیٰ نہ بنالیں؟‘‘ تو یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنالو‘‘۔ (سورۃ البقرہ۔۱۲۵)
(۲) احکام حجاب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ ’’آپ کی ازواج مطہرات کے سامنے ہر قسم کے لوگ آتے ہیں، آپ ازواج کو پردہ کا حکم دیں‘‘ تو یہ آیت نازل ہوگئی: ’’جب تم ازواج نبی سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کی اوٹ سے مانگو‘‘۔ (سورۃ الاحزاب۔۵۳)
(۳) میدانِ بدر میں جانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام سے مشورہ کیا۔ بعض نے منع کیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جانے کا مشورہ دیا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: ’’تمہارا رب تمھیں گھر سے (بدر کی طرف) لے گیا اور بے شک مسلمانوں کی ایک جماعت کو یہ ناپسند تھا‘‘۔ (سورۃ الانفال۔۵) (طبرانی)