محبوبہ مفتی کی برہمی

ملے امن و اماں مجھ کو کہاں سے
عداوت برق کو ہے آشیاں سے
محبوبہ مفتی کی برہمی
کشمیر کے حالات انتہائی ابتر ہیں۔ ملک کا تقریبا ہر امن پسند اور فکر مند شہری ریاست کے حالات پر فکرمند ہیں۔ سیاسی قائدین ہوں یا عوامی تنظیمیںہوں ہر کوئی اس تعلق سے اپنی فکر کا اپنے انداز میں اظہار بھی کر رہا ہے ۔ ذرائع ابلاغ میں بھی اس تعلق سے مختلف آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ جموں و کشمیر اور مرکزی حکومت پر کچھ گوشوںسے تنقیدیں بھی کی جا رہی ہیں۔ حکومتوں پر اس مسئلہ کے تعلق سے محض خاموش تماشائی بنے رہنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے ۔ کوئی بھی اس بات سے مطمئن نہیںہے کہ کشمیر میںحالات بگڑتے جائیں۔ ملک کے عوام اور خود ریاست کے عوام چاہتے ہیں کہ ریاست میں امن قائم ہو ۔ دیڑھ ماہ سے زیادہ عرصہ سے جو کرفیو کا سلسلہ چل رہا ہے اسے ختم کیا جائے اور عوام کی مشکلات اور ان کی پریشانیوںکو ختم کرتے ہوئے انہیںراحت پہونچائی جائے ۔ اس سلسلہ میں ریاستی حکومت پر اور مرکزی حکومت پر بھی تنقیدیں ہوئی ہیں۔ عوامی زندگی میںاور اگر آپ برسر اقتدار ہوں تو آپ پر تنقیدیں ہوتی رہتی ہیں۔ ایسے میں برسر اقتدار قائدین کو اپنے طور پر جوابی برہمی کا اظہار کرنے کی بجائے جو تنقید ہو رہی ہے اس کا موثر اور بہتر ڈھنگ سے جواب دینا ہوتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ چیف منسٹر جموںو کشمیر محبوبہ مفتی عوامی زندگی کے تقاضوں سے واقف نہیںہیں یا پھر وہ ریاست میںجاری حالات پر اس قدر افسر دہ ہیں کہ انہوں نے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی موجودگی میں ہو رہی پریس کانفرنس میں برہمی کا اظہار کردیا اور اچانک وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں۔ کسی چیف منسٹر کیلئے جبکہ اس کی ریاست میں حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں اور دیڑھ مہینے سے کچھ علاقوں کے عوام کرفیو میں ہیں اس طرح کا رویہ مناسب نہیں کہا جاسکتا ۔ وجہ یہ ہوئی کہ پریس کانفرنس میں صحافیوں کی جانب سے محبوبہ مفتی کو نشانہ بنایا گیا تھا اور ان سے 2010 میں ہوئے تشد د کے دوران کی گئی تنقیدوں اور آج کے حالات پر محض خاموشی اختیار کرنے پر سوال کیا تھا ۔ محبوبہ مفتی نے حالانکہ وضاحت کرنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ اچانک ہی برہم ہوگئیں اور انہوںنے صحافیوں پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے پریس کانفرنس ہی سے اٹھ کر چلی گئیں۔ یہ رویہ عوامی زندگی کے تقاضوں کے یکسر مغائر ہے ۔ اس کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔
چیف منسٹر ان سے کئے جانے والے سوالوں پر برہم ہوگئیں انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ وادی کشمیر میں مسلسل انسانی جانوںکا اتلاف ہو رہا ہے ۔ جن گھروں کے نوجوان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ان کے والدین اور رشتہ داروں کی برہمی کتنی ہونی چاہئے ؟ ۔ بقول محبوبہ مفتی ریاست کے 95 فیصد عوام امن پسند ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہے ۔ محض پانچ فیصد کو انہوںنے تشدد پسند قرار دیا ہے ۔ انہیں یہ جواب دینا چاہئے کہ محض مٹھی بھر افراد کے کاموں کی سزا وادی کے عوام کو کیوں دی جا رہی ہے ۔ کیوں وہاں موت کا ننگا ناچ کیا جا رہا ہے ۔ کیا حکومتیں پانچ فیصد افراد پر قابو پانے کے موقف میں نہیں ہیں ۔ کیا کشمیر میں احتجاج کرنے والے کشمیری یا ہندوستانی نہیں ہیں۔ کیوں انہیں پرسکون کرنے اور ان کا غم و غصہ ختم کرنے کیلئے اقدامات نہیں کئے جاتے ۔ کیوںصرف بندوقیں تانیںجاتی ہیں اور کیوںصرف گولیاں داغی جاتی ہیں۔ کیا عوام کے غم و غصے کو ختم کرنے کیلئے بندوقوں کا ہی استعمال رہ گیا ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہے ؟ ۔ ریاستی حکومت نے بندوقوں کے استعمال کو روکنے اور عوام کے احتجاج کو ختم کرنے کیلئے اب تک کیا کچھ کیا ہے ؟ ۔ جہاں تک محبوبہ مفتی حکومت کا سوال ہے انہوںنے کچھ بھی نہیںکیا ہے یا کم از کم ایسا کچھ نہیںکیا ہے جس کے نتیجہ میںحالات کو قابو میں کیا جاسکے ۔ وہاں امن قائم ہوسکے ۔ وہاں عوام کو غم و غصہ ترک کرنے کی ترغیب دی جاسکے ۔ وہاںکرفیو کا سلسلہ ختم کیا جائے ۔ وہاں عام حالات بحال کئے جاسکیں۔ وہاں تعلیمی ادارے اور کاروباری سرگرمیاں بحال کی جاسکیں۔
مرکزی حکومت ہویا ریاستی حکومت دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ریاست میں حالات کو معمول پر لائیں۔ وہاں امن قائم ہوسکے ۔ اس طرح کی برہمی مسائل کا حل نہیں ہوسکتی ۔ جس طرح تشدد سے کسی مسئلہ کا حل دریافت نہیںہوسکتا اسی طرح چیف منسٹر کی برہمی بھی حالات کو بہتر بنانے میں معاون نہیں ہوسکتی ۔ عوامی زندگی کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ اقتدار کا جہاں اپنا مزہ ہوتا ہے وہیں اس کے کچھ عواقب بھی ہوتے ہیں اور ان سب کیلئے عوامی زندگی میں رہنے والوں کو تیار رہنا پڑتا ہے ۔ محبوبہ مفتی بھی عوامی و سیاسی زندگی میں نئی نہیں ہیں۔ انہوں نے سیاسی اتار چڑھاو بہت دیکھے ہیں۔ اس طرح کی برہمی سے انہیں گریز کرنے کی ضرورت ہے اور یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ذرائع ابلاغ ہر صورتحال پر نظر رکھتے ہیں اور وہ آپ کو عوام کے سامنے جوابدہ بناتے ہیں۔