محبت ِحسینؓ ، دراصل محبت ِنبی ؐہے

ابوزہیرسیدزبیرھاشمی نظامی، مدرس جامعہ نظامیہ

شہادت : ۱۰/ محرم الحرام ۶۱ ہجری
اسلامی سال کے اعتبار سے آج اس کے پہلے مہینے(ماہ ِ محرم الحرام ۱۴۳۹ ؁ ہجری) کی دسویں تاریخ ہے جس کو ساری دنیا عاشورہ کے نام سے جانتی ہے، آج کی عظیم تاریخ میں دین ِمتین کی اشاعت و بقا کے لئے نواسۂ رسول (صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم) جگر گوشۂ بَتول حضرت سیدنا امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جس طرح سے شہادتِ عظمیٰ کو اختیار کئے اور راہِ خدا میں بدبخت یزیدیوں کے سامنے سرکٹانے کو پسند کئے، مگر سرجھکانے کو بالکل پسند نہیں کیا، اسیطرح ہمیں بھی چاہئے کہ مولائے ذوالجلال اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ کو راضی کرنے، حبیب خدا احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت حاصل کرنے اور اپنی جان کو راہِ خدامیں نچھاور کرنے کی کوشش کریں۔
خوف ِخدا کیلئے محبت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم بے حد ضروری ہے، اور یہ بھی ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ محبت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو حاصل کرنے کیلئے پہلے عترتِ محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کرنا پڑیگا۔ عترت سے مراد اہل بیت اطہار (یعنی محمد عربی صلی اﷲعلیہ وسلم، حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہم اجمعین ہیں) سے لگاؤ اور وابستگی بہت ضروری ہے۔
آج کی عظیم تاریخ کے پیش نظر عترت محمدی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت دل میں جاگزیں کرنے کیلئے کچھ احادیث شریفہ مختلف کُتبِ حدیث کے حوالے سے تحریر کی گئیں، ان شاء اﷲان احادیث کو پڑھنے کے بعد نہ صرف ہماری زندگیوں میں انقلاب آئیگا بلکہ دوسروں کو بھی راہ ِراست پر لانے اور گمراہی سے بچنے اور بچانے کا بھر پور موقع ملے گا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحالت نماز سجدہ میں تھے کہ حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) آئے اور پشت مبارک پر چڑھ گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی خاطر) سجدہ طویل کردیا۔ (نماز سے فراغت کے بعد) عرض کیا گیا ’’یارسول اللہ! کیا سجدہ طویل کرنے کا حکم آگیا؟‘‘۔ فرمایا ’’نہیں، میرے دونوں بیٹے حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) میری پشت پر چڑھ گئے تھے، میں نے یہ ناپسند کیا کہ جلدی کروں‘‘ (مجمع الزوائد۔ مسند من حدیث عبد اللہ بن شداد) یعنی حضرات حسن اور حسین رضی اللہ عنہما جب حالت نماز میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قصداً سجدہ طویل کردیا، تاکہ حضرات حسنین کریمین گر نہ پڑیں اور نہ انھیں کوئی گزند پہنچے۔
حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اﷲعنہما حضرت سیدنا علی مرتضی اور حضرت خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہما کے فرزندان ارجمند تھے، لیکن یہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی بھی ٹھنڈک تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری دنیا کو اپنے قول و عمل سے بتا دیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرات حسنین رضی اللہ عنہما میرے بھی لخت جگر ہیں، یہ میری نسل سے ہیں، میری ذریت ہیں اور فرمایا ’’ہر نبی کی اولاد کا نسب اپنے باپ سے شروع ہوکر دادا پر ختم ہوتا ہے، مگر اولاد فاطمہ کا نسب بھی میں ہوں، وہ میرے بھی لخت جگر ہیں‘‘۔ فرمایا ’’فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، مجھے بے چین کردیتی ہے ہر وہ چیز جو اسے بے چین کرتی ہے اور مجھے خوش کرتی ہے ہر وہ چیز جو اسے خوش کرتی ہے۔ قیامت کے روز تمام نسبی رشتے منقطع ہو جائیں گے، ماسواء میرے نسبی، قرابت داری اور سسرالی رشتے کے۔ (مسند احمد بن حنبل، المستدرک)
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب لوگوں کو اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد ستاتی، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس کی یاد دلوں میں اضطراب پیدا کرتی تو لوگ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے در دولت پر حاضر ہوتے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت کرکے اپنی آنکھوں کی تشنگی کا مداوا کرتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس نظروں میں سماجاتا۔ صحابہ کرام یہ بھی جانتے تھے کہ نواسہ رسول کو خلعت شہادت سے سرفراز ہونا ہے، کیونکہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا تذکرہ سن چکے تھے۔ اس حوالے سے بھی حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اصحاب رسول کی نگاہوں کا مرکز بن گئے تھے۔
حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سینے سے لے کر سر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس سے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے۔ (جامع ترمذی)
حضرت یعلی بن مروہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا ’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ تعالی اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے‘‘۔ (جامع ترمذی)حضرت امام حسین بن علی (رضی اللہ عنہما) جن کے بارے میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے ہیں کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اور یہ کہ اللہ تعالی اس شخص سے محبت کرتا ہے، جو حسین سے محبت کرتا ہے۔ اب جس سے اللہ تعالی محبت کرتا ہے، اس سے عداوت رکھنا اور اس کا خون ناحق بہانا کتنا بڑا جرم ہے؟۔ استقامت کے کوہ گراں سے یہ توقع کرنا کہ وہ ایک فاسق اور فاجر کے دست پلید پر بیعت کرلے گا، بالکل فضول سی بات ہے۔ اہل حق راہ حیات میں اپنی جان کا نذرانہ تو پیش کردیتے ہیں، لیکن اصولوں پر کسی سے سمجھوتہ کے روادار نہیں ہوتے۔ اگر میدان کربلا میں حق، باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتا تو پھر قیامت تک حق کا پرچم بلند کرنے کی کوئی جرأت نہ کرتا۔ کوئی حرف حق زبان پر نہ لاتا، درندگی، وحشت اور بربریت پھر انسانی معاشروں پر محیط ہو جاتی اور قیامت تک کے لئے جرأت و بیباکی کا پرچم سرنگوں ہو جاتا اور نانا کا دین زاغوں کے تصرف میں آکر اپنی اقدار اور روح دونوں سے محروم ہو جاتا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اٹھائے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ ’’اے اللہ! میں اس (حسین) سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت کر‘‘۔ (المستدرک للحاکم)
اگر ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا دم بھرتے ہیں، اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو اپنا اوڑھنا بچھونا قرار دیتے ہیں، اگر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا تشخص گردانتے ہیں تو پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس سے محبت کرتے ہیں اور بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں کہ ’’باری تعالی! میں حسین سے محبت کرتا ہوں، توبھی اس سے محبت کر‘‘۔ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عداوت کا تصور بھی ہمارے ذہن میں نہیں آنا چاہئے، بلکہ اللہ کے محبوب کے اس محبوب (حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ) سے والہانہ محبت کا اظہار کرکے اپنے رسول سے گہری وابستگی کو مزید مستحکم بنانا چاہئے کہ قصر ایمان کی بنیادوں کو مضبوط بنانے کا یہ ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
اہل بیت کی محبت اور اصحاب رسول کی محبت دراصل ایک ہی محبت کا نام ہے۔ ان محبتوں کو خانوں میں تقسیم کرنا، امت مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ ملت اسلامیہ کو دوئی کے ہر تصور کو مٹاکر اخوت و محبت اور یگانگت کے ان سرچشموں سے اپنا ناطہ جوڑ لینا چاہئے، جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا طرہ امتیاز اور شوکت و عظمت اسلام کا مظہر تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کو اپنی محبت قرار دیا، گویا امام حسین سے نفرت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی عملاً نفی ہے اور کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
zubairhashmi7@gmial.com