انکاؤنٹر میں موت سے قبل اسسٹنٹ پروفیسر بیٹے کا والد کو آخری کال
سرینگر ۔ /6 مئی (سیاست ڈاٹ کام) بیٹے نے اپنے باپ سے فون پر یہ کہا تھا کہ اس نے اگر اپنے والدین کو کوئی تکلیف پہونچائی ہے تو اس پر وہ معافی کاخواستگار ہے ۔ یہ فیاض احمد بٹ کے لئے آج صبح کا یہ پہلا فون کال تھا جو انہیں اپنے سوشیالوجسٹ اور اسسٹنٹ پروفیسر بیٹے محمد رفیع بٹ نے کہا تھا اور غالباً یہ اُس (رفیع بٹ) کی زندگی کا آخری فون کال بھی تھا جو محمد رفیع بٹ نے اپنے والدین اور ارکان خاندان کو خدا حافظ کہنے کیلئے وداعی کال کیا تھا ۔ جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان میں سکیورٹی فورسیس کے ساتھ انکاؤنٹر کے درمیان رفیع بٹ نے اپنے والد سے کہا تھا کہ ’’ مجھ سے اگر آپ کو کوئی تکلیف پہونچی ہے تو میں اس کے لئے معافی چاہتا ہوں ‘‘ ۔ رفیع گزشتہ جمعہ کو گھر چھوڑ کر چلایا گیا تھا اور دہشت گرد گروپ حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کی تھی ۔ جموں و کشمیر پولیس جو انکاؤنٹر کے مقام سے کئے جانے والے تمام کالس کی نگرانی کررہی تھی ۔ فوری طور پر اس کا پتہ چلایا اور فیاض بٹ کو اس مقام پر لانے کے لئے ایک پولیس ٹیم روانہ کردی گئی تاکہ وہ اپنے بیٹے کو خود سپردگی کی ترغیب دے سکیں ۔ رفیع کے والد ، اس کی والدہ ، بہن اور بیوی کے ساتھ اس مقام پر پہونچنے کے لئے گھر سے روانہ ہوئے ۔ لیکن 14 کیلو میٹر کی مسافت طئے کرتے ہوئے انکاؤنٹر کے مقام بوٹاکیل پہونچے انہیں رفیع کی موت کی المناک خبر موصول ہوئی اور یہ خاندان اس کی تکفین و تدفین کی تیاریوں کے لئے گھر واپس ہوگیا ۔ فیاض بٹ نے اپنے بیٹے سے ہوئی بات چیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ انہیں یقین ہوچکا تھا کہ جب وہ وہاں پہونچیں گے اس وقت تک وہ ان کی بات سننے کے لئے زندہ نہیں رہے گا ۔ رفیع نے اپنے والد سے کہا تھا کہ ’’مجھ سے اگر آپ کو کوئی تکلیف پہونچی ہے تو معافی چاہتا ہوں ۔ یہ میرا آخری کال ہے کیونکہ میں اب اللہ سے ملنے جارہا ہوں ‘‘۔ 33 سالہ رفیع بٹ جموں و کشمیر یونیورسٹی میں سوشیالوجی کا اسسٹنٹ پروفیسر تھا اور جمعہ کو یونیورسٹی سے واپسی کے بعد سے لاپتہ تھا ۔ فیاض احمد بٹ جو 1990 ء کی دہائی کے اوائیل میں ایک دہشت گرد تنظیم کا روپوش ورکر تھا اپنے بیٹے کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھا ہوا تھا کیونکہ اس (رفیع) نے 18 سال کی عمر میں مقبوضہ کشمیر پہونچنے کی کوشش کی تھی ۔
رفیع احمد پی ایچ ڈی ڈگری یافتہ نوجوان تھا ۔