مولانا حبیب سہیل بن سعید العیدروس
حبیب حسین بن عبداللہ العیدروسؒ کی ولادت ۸۶۱ ھ میں حضرموت کے شہر تریم میں ہوئی ۔ کم سنی میں ہی حفظِ قرآن مجید فرماچکے تھے اور بعد حفظِ قرآن ، آپؒ علم قرأت و تجوید جو قرآن مجید سے متعلق ہے کہ حصول میں مشغول ہوگئے اور بہت چھوٹی عمر میں ہی امام نافع اور امام ابوعمرو کی قرأت کے ماہر بن گئے ۔ چونکہ حبیب حسینؒ کی نشوونما علم و تقویٰ اور شریعت و حقیقت کے گھرانے میں ہوئی، جوکہ سلطان الأولیاء حبیب عبداﷲ العیدروس الاکبرؒ کا گھرانہ ہے ، آپؒ کی تربیت صالح ترین اور تمام نقائص سے مبرا تھی ۔ اس لئے آپؒ نے علوم شریعت و لغت کو تدریسی طورپر اپنے زمانے کے کامل ترین مشائخ اور رجالِ فن سے حاصل فرمایا اور اسی عمر میں آپؒ علومِ شرعیہ ، فنون ادبیہ اور قواعدِ عربیہ کی مہارت کو پہنچ گئے ۔ آپؒ نے اپنے شہر کے کئی شیوخ سے علوم حاصل فرمائے جن میں امام الحافظ محمد بن علی خردؒ ہیں جن سے آپؒ نے علم حدیث حاصل فرمایا اور صحیحین کی قرأت بھی مکمل فرمائی اور امام محمد بن عبدالرحمن بلفقیہؒ شیخ الاسلام احمد شریف بن علی خردؒ ، شیخ عبداﷲ بن عبدالرحمن بلحاج بافضلؒ اور الفقیہ المحقق عبداﷲ بن علی بامدرکؒ سے علوم فقہ حاصل فرمائے اور اپنے شفیق چچا الإمام عمدۃ الانام الشیخ علی بن أبی بکر السکرانؒ سے صحبتِ خاص حاصل تھی اور متعدد علوم بھی حاصل فرمائے کیونکہ حبیب حسینؒ کے والد بزرگوار سلطان الملأ حبیب عبداللہ العیدروس الاکبرؒ کا وصال اس وقت ہوا جبکہ آپؒ ابھی چار سال ہی کی عمر کو پہنچے تھے ۔بعد میں حبیب حسینؒ بندرگاہِ عدن تشریف لے گئے اور وہاں اپنے بڑے بھائی شیخ الکبیر محی النفوس حبیب ابوبکر العدنیؒ ، العلامہ محمد بن احمد بافضلؒ اور العلامہ عبداﷲ بن احمد ؒ سے صحبت اختیار فرمائی اور کثیر فنون و علوم حاصل فرمائے ۔ اس کے بعد امام عبدالہادی السودیؒ سے بھی بہت کچھ حاصل کیا پھر الشیخ العلامہ عمر الحبشی الیمنیؒ سے نحو ، صرف اور علم فلکیات حاصل فرمایا۔ اس سے فارغ ہی ہوئے کہ ایک قافلہ بیت الحرام کی طرف جارہا تھا اور اسی کے لئے آواز دے رہا تھا آپؒ نے اس ندا کو لبیک کہا ، احرام باندھا اور حج بیت اﷲ سے فارغ ہوئے اور اپنے جدِّ امجد سیدالمرسلین امام الأنبیاء سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے فیضیاب ہوئے ۔ پھر یہیں دو سال حصولِ علم و برکات کی غرض سے قیام فرمایا اور الأصلین ، اصول الدین و اصول الفقہ کو العلامہ عبداﷲ بن احمد باکثیرؒ سے پڑھا اور الحافظ امام محمد بن عبدالرحمن السخاویؒ اور القاضی ابراھیم بن علی بن ظھیرۃؒ سے علم حدیث وغیرہ حاصل فرمایا ۔ بعد فراغت اپنے وطن اس حال میں واپس لوٹے کہ تمام علوم سے مکمل سیرابی حاصل کرکے کاملین کی صفِ اوّل میں نام درج کرواچکے تھے ۔
بعد واپسی آپ تمام وقت درس و تدریس میں مشغول رہتے۔ آپؒ سے بہت فضلاء نے نفع و استفادہ حاصل کیا جن میں آپؒ کے استاد شیخ المحدث محمد بن علی خردؒ خود شامل ہیں۔ علاوہ ازیں آپؒ سے فضیلت پانے والوں میں آپؒ کے اپنے صاحبزادے الشیخ الامام حبیب احمدؒ ہیں اور الفقیہ عبداﷲ بن احمد بن سھل باقشیرؒ ، الفقیہ علی بن عبداللہ بافضلؒ وغیرہ ہیں۔ (المشرع الروی۲:۹۶) حبیب حسینؒ جودو و سخا کے مرکز کامل تھے جس سے ہر کوئی فائدہ حاصل کرتا ۔ آپؒ کے آثار بہت ہے جن میں مسجد باشعبان کی عمارت ہے جوکہ خراب و خستہ حالت میں تھی جس کی آپؒ نے مرمت کروائی اور ایک بہترین عمارت کی شکل میں تبدیل کیا جو آج آپؒ ہی کی طرف منسوب ہے ۔ اس مسجد میں آپؒ اکثر اعتکاف فرمایا کرتے خصوصاً اپنی عمر کے آخری حصہ میں اکثر اسی مسجد میں معتکف رہتے ۔
آپؒنے ۱۶ محرم الحرام بروز منگل ۹۱۷ھ کو اس دارفانی سے کوچ فرمایا اور آپؒ کی اپنے والدِ ماجد کی مزارِ انور کے نزدیک اسی گنبد مشہورہ میں تدفین عمل میں آئی جو انوارِ منیرہ پر مشتمل ہے ۔ اﷲ تعالیٰ ان اکابرین و اسلاف کے نقوشِ قدم پر عمل کرنے اور ان کی حیات و تعلیمات سے اپنی زندگیوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور روزِ قیامت اُنہی کی قیادت و صحبت میں حشر فرمائے ۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین و آلہ الطیبین