ٹی آر ایس حکومت کی کار کردگی پر عوامی ردعمل کا انتظار
حیدرآباد۔ یکم جنوری (سیاست نیوز) اب جب کہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کی آہٹ سنائی دے رہی ہے، حکمراں ٹی آر ایس، اپوزیشن کانگریس اور تلگودیشم و بی جے پی اتحاد نے مجوزہ انتخابات کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ شہر حیدرآباد کے جغرافیائی حدود اور رقبہ میں توسیع کے پیش نظر شہری ادارہ کے انتخابات کو کئی لحاظ سے اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے حدود میں 24 اسمبلی حلقہ جات اور تقریباً 65 لاکھ رائے دہند ہیں، جس میں بوگس ووٹرس کی قابل لحاظ تعداد پائے جانے کی شکایت ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ بلدیہ کے انتخابات کا کسی بھی وقت اعلان کیا جاسکتا ہے، لیکن شہر حیدرآباد میں حکمراں ٹی آر ایس ایک کمزور جماعت ہونے کے باعث یہ انتخابات اس کے لئے ایک سخت آزمائش ثابت ہوں گے اور سال 2009ء میں منعقدہ جی ایچ ایم سی انتخابات میں ٹی آر ایس نے مقابلہ نہیں کیا تھا، گوکہ اس وقت تلنگانہ تحریک نقطہ عروج پر تھی۔ اگرچہ کہ جی ایچ ایم سی کے حدود میں بیشتر اسمبلی حلقوں پر تلگودیشم۔ بی جے پی اتحاد کا قبضہ ہے۔ لیکن حالیہ دنوں بعض تلگودیشم ارکان اسمبلی نے وفاداری تبدیل کرتے ہوئے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرلی۔ یہ انتخابات حکمراں ٹی آر ایس کے لئے نہ صرف وقار کا مسئلہ بن گئے ہیں، بلکہ ایک چھوٹا سا ریفرنڈم بھی تصور کیا جا رہا ہے۔ چوں کہ ٹی آر ایس نے علحدہ ریاست تلنگانہ کے نام پر کانگریس سے اقتدار چھین لیا ہے، لیکن طرز حکمرانی میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے اور عوام کے مختلف طبقات بالخصوص بے روزگار نوجوان حکومت سے مایوس اور خائف ہوگئے ہیں، جس کے پیش نظر حکومت نے محکمہ پولیس اور تعلیمات میں تقررات اور کنٹراکٹ ملازمین کے مطالبہ کی یکسوئی کی سمت پیش رفت کی ہے۔ ٹی آر ایس حکومت کی کامیابیوں اور کارناموں پر مشتمل ہورڈنگس شہر کے مختلف چوراہوں پر آویزاں کئے گئے ہیں، جب کہ بعض طبقات کے لئے پراپرٹی ٹیکس میں چھوٹ اور برقی بلز کے بقایہ جات کی معافی کا اعلان کیا گیا ہے۔ دوسری طرف وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی مسٹر کے ٹی راما راؤ جو کہ چیف منسٹر کے سی آر کے فرزند ہیں، بلدی انتخابات میں رائے دہندوں کو راغب کرنے کے لئے حیدرآباد کو عالمی سطح کا پر شہر بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ مجوزہ انتخابات میں سیما۔ آندھرا کے ووٹرس بھی کلیدی رول ادا کرسکتے ہیں، جس کے پیش نظر انھیں رجھانے کے لئے ٹی آر ایس قائدین ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور انھیں یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہیں کہ تشکیل تلنگانہ کے بعد ایک بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ جیسا کہ پارٹی سربراہ کے سی آر کی دھمکی آمیز زبان سے اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے۔ ریاستی وزیر راما راؤ نے بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت سے تلنگانہ کے لئے خاطر خواہ فنڈس حاصل کرنے میں کوئی مساعی نہیں کی، جب کہ صدر پردیش کانگریس اتم کمار ریڈی نے الزام عائد کیا کہ بلدی انتخابات کے پیش نظر ٹی آر ایس حکومت جھوٹے وعدے کر رہی ہے، جو کہ اس کا وتیرہ ہے، جب کہ یہ حکومت مسلمانوں کے لئے 12 فیصد تحفظات کے وعدہ کی تکمیل میں یکسر ناکام ہو گئی ہے۔ بی جے پی کے ریاستی مسٹر جی کشن ریڈی نے دعویٰ کیا کہ حیدرآباد کے باشعور عوام حکومت کے وعدوں پر بھروسہ نہیں کریں گے اور مجوزہ انتخابات میں ٹی آر ایس کو شکست دیں گے۔