نیویارک 2 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) اسٹیچو آف لبرٹی (مجسمۂ آزادی) جو امریکہ میں جمہوریت اور آزادی کی علامت ہے اور اس دیو ہیکل مجسمہ کی سیاحت کرنا ہر ایک سیاح کے پروگرام میں شامل ہوتا ہے۔ تاہم ایک نئی تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ مجسمہ کی تعمیر ایک پراجکٹ سے متاثر ہوکر کی گئی ہے جو دراصل نہر سوئز کی نگرانی کرنے والی ایک عرب خاتون ہے۔ اس نوعیت کا انکشاف امریکہ میں کچھ لوگوں کے لئے ضرورت حیرت انگیز ہوگا۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت جب جنگ زدہ شام اور دیگر مسلم اکثریت والے ممالک سے پناہ گزینوں کی امریکہ آمد نے بحث کا ایک نیا موضوع چھیڑ دیا ہے۔ فرانسیسی سنگتراش فریڈرک آگستی بارتھولڈی جس نے 1855-56 ء میں مصر کا دورہ کیا تھا۔ وہاں اس کے دل میں دیوہیکل مجسمہ بنانے کی خواہش پیدا ہوئی جو عوام کے لئے تاریخی نوعیت کے حامل ہوئی۔ یہ بات نیویارک اسٹیچو آف لبرٹی کی دیکھ بھال کرنے والی یو ایس نیشنل پارک سرویس نے بتائی۔ جس وقت حکومت مصر نے نہر سوئز میں 1869 ء میں ایک لائٹ ہاؤس تعمیر کرنے کی تجاویز طلب کیں اُس وقت بارتھولڈی نے ایک خاتون کے دیوہیکل مجسمہ کا ڈیزائن پیش کیا جس کے ہاتھ میں ایک بڑی مشعل ہے جسے اُس نے ’’مصر (یا ترکی) ایشیاء کے لئے روشنی لایا‘‘ سے موسوم کیا تھا۔