مجدد دکن فضیلت جنگ حافظ محمد انواراﷲ فاروقی رحمۃ اﷲ علیہ

ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

استاذ سلاطین دکن عارف باﷲ امام اہلسنت امام و حافظ محمد انوارﷲ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمۃ و الرضوان مؤسس جامعہ نظامیہ نے ہر شعبۂ حیات میں اہل اسلام کی رہنمائی فرمائی ۔ رفاہی و مذہبی اُمور کے علاوہ تصفیہ مقدمات اور ملکی و سیاسی اُمور میں بھی بے شمار اصلاحات کیں۔ حکومت آصفیہ اوردوسرے عہدیداروں پر حضرت فضیلت جنگؒ کا کیا اثر تھا اس کو مولانا الیاس برنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ’’علامہ الحافظ محمد انواراﷲ فاروقی  ؒ اعلیٰ حضرت حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں کے استاد خاص تھے ۔ بڑی ذی اثر ، بارعب اور حکومت میں بیحد دخیل ، عجب شخصیت کہ ان کے رسوخ سے حکومت کا پلڑا جھک جائے ۔ اکابر ملت کی شان نظر آئے ۔ گلانسی وزیر فینانس حضرت مولانا انواراللہ فاروقیؒ کے اثر کو بہت مانتا تھا اور نازک ، مشکل موقعوں پر مجھے حضرت قبلہؒ کو سمجھانے کیلئے بھیجتا تھا ‘‘۔

پروفیسر ڈاکٹر عقیل ہاشمی سابق صدر شعبۂ اردو عثمانیہ یونیورسٹی ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’’اس مرد حق آگاہ نے ریاست ممالک محروسہ حیدرآباد کے علمی و ادبی ماحول کے ساتھ ساتھ شعار دینی میں ایک خاموش انقلاب برپا کردیا جس کا ایک عرصہ دراز تک اثر و نفوذ قائم و باقی رہا ۔ حکومت آصفیہ میں نواب میر محبوب علی خان سے پہلے یہاں کی سرکاری زبان فارسی تھی ۔ مولانا حافظ محمد انواراﷲ فاروقیؒ کے شاگرد میرے محبوب علی خاں کا یہ کارنامہ ہے کہ انھوں نے اپنے عہد حکومت میں ۱۲ ؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱؁ ھ میں ’’اردو‘‘ کو سرکاری زبان کی حیثیت قرار دی جب کہ اس سے ۹ سال قبل حضرت فضیلت جنگ نے مدرسہ نظامیہ کی بنیاد ڈالی جس کا ذریعہ تعلیم اردو زبان ہی تھا ۔ مولانا حافظ محمد انواراﷲ فاروقیؒ نے اردو زبان میں بیشتر کتابیں مختلف موضوعات پر لکھیں ۔اصلاحی اُمور میں مولانا حافظ محمد انواراﷲ فاروقیؒ کی بے مثال تجدیدی خدمات کے پیش نظر انھیں بحیثیت ’’مجدد دکن ‘‘ سراہا اور یاد کیا جاتا رہے گا ‘‘۔ یحییٰ ابن محمد الیافعی نے اپنے ایک عربی قصیدے میں بجا طورپر اعتراف کیا ہے کہ مولانا حافظ محمد انواراﷲ فاروقیؒ ہدایت کے نور ہیں اور بلاشبہ اپنے زمانے کے مجدد ہیں۔

والیان ریاست حیدرآباد کے اُستاد کی حیثیت سے بھی مولانا انواراﷲ فاروقی ؓ نے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے ۔ مشہور عربی مقولہ ہے کہ ’’قوم اپنے حاکم کے دین پر ہوتی ہے ‘‘۔ غالباً اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو یہ شرف بھی عطا فرمایا کہ آپ پہلے حاکم کی تربیت و تعلیم پر مقرر ہوئے جیسے میر محبوب علی خاں نظام ششم ، چھ سال اور نواب میر عثمان علی خاں نظام ہفتم بائیس سال مولاناؒ کی زیرتربیت رہے ۔ اس طرح بادشاہان آصفیہ کے دل و دماغ اور مسلک و عقیدے میں درستگی ، عوام کی درستی کا باعث بنی اور یہ مولاناؒ کا اپنے عہد میں نمایاں کارنامہ رہا ۔
حضرت فضیلت جنگؒ نے ملک و ملت کو اسلامی نصب العین کے سانچے میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کی جس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے ۔ مولانا اپنے علاقہ دکن میں مجاہد اعظم اور مصلح کبیر کی حیثیت سے معروف رہے ۔ خالص رضائے الٰہی کے تحت آپ کئی اہم اُمور میں اصلاح کی طرف متوجہ ہوئے ۔ علم دین کی تحصیل ، فرمان رسول اﷲ ﷺ کے مطابق لازم و فرض ہے اور مسلمان عام طورپر حصول علم سے غافل تھے ، مولانا انواراﷲؒ نے اس کی طرف اصلاحی فکر فرمائی ۔

حضرت شیخ الاسلام اپنے وقت کے عظیم اسلامی قائد ، عاشق رسول صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم اورغیرمعمولی جلالت شان رکھنے والی علمی ، سماجی و روحانی شخصیت تھے ۔ آپ ریاست حیدرآباد کے آخری دو حکمرانوں آصفجاہ سادس اور آصفجاہ سابع کے استاذ و اتالیق رہے ۔ آصف جاہ سابع نے آپ کو ۱۲ مئی ۱۹۱۲؁ء میں صدرالصدور اور ۱۳ اپریل ۱۹۱۴؁ء میں ( وزیر اُمور مذہبی و اوقاف) کے جلیل القدر عہدوں پر فائز کیا ۔ آپؒ نے ۱۳۰۸؁ء میں دائرۃ المعارف العثمانیہ جیسا شہرۂ آفاق تحقیقی و علمی ادارہ قائم کیا ،اس کے علاوہ آپ نے کئی دینی ادارے قائم کئے ۔ ۱۳۰۸؁ میں کتب خانہ آصفیہ جیسی عظیم ترین لائبریری کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ اسلامی کتب کی نشر و اشاعت کیلئے ۱۳۳۰؁ھ میں مجلس اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ کی داغ بیل ڈالی ۔
حضرت بانی جامعہ نظامیہ کی خدمات ناقابل فراموش ہے ، آپ کے مشن کو جاری و ساری رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ کی تعلیم و تربیت کو اقطاع عالم کے گوشے گوشے میں پھیلایا جائے ۔