متمول مسلمانوں کو مشورہ

کان نے ہوش کو الجھایا ہے افسانوں میں
آنکھ نے دل کو پھنسا رکھا ہے ارمانوں میں
متمول مسلمانوں کو مشورہ
ہندوستان میں نہایت ہی دلوں کو توڑ دینے والے واقعات اور منحوس عوامل کے درمیان آر ایس ایس کی محاذی تنظیموں نے غریب مسلمانوں کو لالچ دے کر ہندوبنانے کی جس طرح کی مہم شروع کی ہے اس کی مسلم پرنسل لاء بورڈ نے بروقت مذمت کرتے ہوئے مسلمانان ہند کی توجہ اتحاد اور امداد کی جانب مبذول کروائی ہے ۔وقت کے تقاضہ کی نشاندہی کی ہے کہ اگر متمول مسلمان اپنے غریب مسلم بھائیوں کی مدد کرتے رہیں تو سارے ملک میں دشمن طاقتیں غریب مسلمانوں کی بے بسی اور مجبوریوں کا ناحق فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوں گی۔ بی جے پی کی انتخابی کامیابی کے ساتھ ہی نریندر مودی نے وزیر اعظم کے اہم عہدہ کو حاصل کرلیا ہے یہ تبدیلی از خود ہندوستان کے سیکولر کردار اور اس کے دامن پر سیاہ داغ سمجھا جارہا ہے۔ اب ان تبدیلیوں کے سیاہ کارنامے بھی دھیرے دھیرے نمودار ہورہے ہیں تو مسلمانان ہند کو اپنی طاقت،عقل، دانشمندی، اتحاد کو مجتمع کرنے کی فکر لاحق ہونی چاہئے ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے حسب مقدور ملک کی فرقہ پرست تنظیموں کی سازشوں سے مسلمانوں کو چوکنا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بی جے پی اور اس کی بغل بچہ تنظیمیں اپنے دیرینہ منصوبہ کو ایک منظم طریقہ سے روبہ عمل لاکر تبدیلی مذہب کے واقعات پر پابندی عائد کرنے والا قانون منظور کرانے کی کوشش کررہی ہیں۔ بی جے پی اپنے اقتدار اور لوک سبھا میں عوامی طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انسداد مذہبی تبدیلی قانون لانا چاہتی ہے اس لئے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں اور اقلیتوں عیسائیوں کو ہندو مذہب میں شامل کرنے ’’گھر واپسی ‘‘جیسے پروگرام منعقد کرائے جارہے ہیں تا کہ سیاسی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں انسداد مذہب تبدیلی قانون کی حمایت کرسکیں جیسا کہ اس طرح کے قانون کی کوئی گنجائش نہیں ہے یہ جمہوری اور دستوری اصولوں کے مغائر ہے مگر بی جے پی نے اپنی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے نظریات کو کامیاب بنانے ہر ممکنہ کوشش کا آغاز کیا ہے اس لئے ہندوستانی سیکولر ذہن عوام کو ان سازشوں اور منصوبوں کے خلاف متحدہونا چاہئے ۔ انسداد تبدیلی مذہب قانون لانے کی ہرکوشش کو ناکام بنانا چاہئے ۔ ہندوستان میں یا ایشیاء کے کسی بھی علاقہ میں رہنے و الے ایمانی حرارت سے سرشار مسلمان اپنا مذہب ہر گز تبدیل نہیں کرسکتے۔ سازشی طاقتوں کی پروپگنڈہ مہم کی وجہ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ جو چاہے کرسکتے ہیں مگر آگرہ میں 60 مسلم خاندانوں نے ان سازشوں کا جواب دے کر واضح کردیا ہے کہ ہندو تنظیموں نے انہیں بے وقوف بناکر پوجا پاٹ کے مقام تک لایا تھا جبکہ انہو ںنے اپنے کلمہ اور اللہ کی رسی کو ہر گز نہیں چھوڑا ہے۔ یہ ایمانی جذبہ ہندو تنظیم کے منصوبوں کیلئے زبردست دھکہ ہے لیکن اس ناکامی کو چھپانے کیلئے ہندو تنظیمیں نت نئے ڈرامے اور میڈیا کے سہارے مختلف تشہیری مواد کو پھیلانے میں سرگرم ہیں ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے کہی گئی باتوں پر مسلمانان ہند کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ نریندر مودی زیر قیادت حکومت اقتدار پر آنے کے بعد سیاسی نوعیت کے تنازعہ کے ذریعہ دو فرقوں کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے کے عوامل میں ملوث دکھائی دیتی ہے۔ اس سے چوکنا رہنا ضروری ہے ۔ ہر دو جانب کے عوام کو بی جے پی کے ناپاک ارادوں کو بھانپ کر آپسی کشیدگی کو ہوا نہیں دینی چاہئے ۔ تبدیلی مذہب کا واقعہ سراسر ایک سیاسی حربہ ہے ۔ گھر واپسی کا پروگرام بیمار ذہن کا تیار کردہ فرسودہ ڈرامہ ہے جس کو ہندوستانی مسلمان ہر گز درست نہیں مانیں گے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غریب مسلمانوں کو ان ہاتھوں کا کھلونا بننے سے روکا جائے جو غربت کا استحصال کرتے ہوئے افسوسناک کارروائیوں کو انجام دینے کی کوشش کررہے ہیں ہندوستان میں غربت کا مسئلہ کسی ایک مذہب سے مربوط نہیں ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہندوستان کی معاشی ترقی کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کے بعد اس کو پورا کرنے کی کوشش کرے مگر مودی حکومت نے ترقی کے کام کرنے کے بجائے فرسودہ عوامل کو ترجیح دے دی ہے تو اس سے ہندوستان میں غربت کی شرح اور معاشی پسماندگی کا گراف مزید تشویشناک حد تک گر جائے گا ۔ پسماندگی ،ناخواندگی اور غربت ہندوستانی سماج کے نازک مسائل ہیں ان کی یکسوئی کے بجائے اگر غیر ضروری عوامل پر توانائی ضائع کی جائے تو عوام بی جے پی اور اس کی قیادت کو ہر گز معاف نہیں کریں گے جہاں تک ہندوستانی مسلمانوں کو مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے کی گئی تلقین کا سوال ہے تو اسے ہر متمول مسلم کے گھر کی صدا بنائی جائے تو غریب مسلم کا گھر محفوظ رہے گا ۔ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مسلم معاشرہ کے باشعور افراد کو یہ فکر و تشویش لاحق ہے کہ بعض مسلم قائدین ہمارے اجتماعی شعور کو آگے بڑھانے کے بجائے اسے پیچھے ڈھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔