مبلغ کیسا ہونا چاہئے؟

اور تم نہ برا بھلا کہو انھیں جن کی یہ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا (ایسا نہ ہو) کہ وہ بھی برا بھلا کہنے لگیں اللہ کو زیادتی کرتے ہوئے جہالت سے۔ یونہی آراستہ کردیا ہے ہم نے ہر امت کے لئے ان کا عمل پھر اپنے رب کی طرف ہی لوٹ کر آنا ہے انھیں، پھر وہ انھیں بتائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔ (سورۃ الانعام۔۹۰۱)
مبلغ اگر صحیح تربیت یافتہ نہ ہو تو اپنے نظریات اور عقائد کی تبلیغ و اشاعت کے جوش میں وہ حد اعتدال سے تجاوز کرجاتا ہے اور معقولیت کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے نظریات اور عقائد کے متعلق اس کے سامعین کے دلوں میں نفرت اور تعصب پیدا ہو جاتا ہے

اور بسا اوقات نوبت گالی گلوج تک پہنچ جاتی ہے۔ اس آیت سے مبلغین اسلام کی تربیت مقصود ہے، تاکہ وہ اسلام کی دعوت کو پوری شائستگی اور متانت سے پہنچانے کے لئے تیار ہو جائیں۔ انھیں حکم دیا کہ مشرکین کے باطل خداؤں کو برا بھلا نہ کہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مشتعل ہوکر تمہارے معبود برحق کی جناب میں گستاخی کرنے لگیں۔ اس انداز سے انھیں اسلام کا پیغام پہنچاؤ اور ان کے عقائد باطلہ کی تردید کرو کہ انھیں تمہاری دعوت قبول کئے بغیر کوئی چارۂ کار ہی نہ رہے۔ علمائے اصول نے اس آیت سے سد ذرائع کا قاعدہ اخذ کیا ہے، جس کا مختصراً مطلب یہ ہے کہ ہر مباح کام جب کسی معصیت کا سبب بن جائے تو اس کو ترک کردیا جائے گا۔