مایا کوڈنانی بھی بری

مرکز میں نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے اقتدار پر آنے کے بعد سے مختلف سنگین جرائم کے مقدمات میں ماخوذ فرقہ پرست تنظیموں کے ارکان کو عدالتوں سے مسلسل برات ملتی جا رہی ہے ۔ ایسے مقدمات میں کئی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ارکان کو گرفتار کیا گیا تھا ۔ ان میں آر ایس ایس ‘ بی جے پی اور ایسی ہی تنظیموں کے ارکان شامل تھے ۔ چاہے یہ مالیگاوں بم دھماکوں کے مقدمات ہوں یا پھر حیدرآباد کی مکہ مسجد میں ہوئے بم دھماکوں کا مقدمہ ہو ۔ چاہے یہ گجرات کے مسلم کش فسادات ہوں یا پھر سہراب الدین شیخ کے فرضی انکاؤنٹر کا مقدمہ ہو ۔ چاہے یہ گوا میں ہوئے دھماکوں کا مقدمہ ہو یا پھر کوئی اور مقدمہ ہو ۔ کئی معاملات میں تحقیقاتی ایجنسیوں نے ان فرقہ پرست تنظیموں کے ارکان کو گرفتار کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمات چلائے تھے ۔ درمیان میں قومی تحقیقاتی ایجنسی ( این آئی اے ) کا قیام عمل میں آیا اور ملک کے عوام کو یہ تیقن دیا گیا تھا کہ این آئی اے کے ذریعہ ایسے مقدمات میں ماخوذ کئے گئے ملزمین کو سزائیں دلانے کیلئے ہر ممکن جدوجہد کی جائے گی تاہم حالیہ عدالتی فیصلوں سے واضح ہوگیا ہے کہ این آئی اے اور دوسری بھی تحقیقاتی ایجنسیاں اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرنے میں پوری طرح ناکام ہوگئی ہیں۔ ایک کے بعد ایک اہم ترین اور حساس نوعیت کے مقدمات کے ملزمین کو عدالتوں سے برات ملتی جا رہی ہے ۔ تحقیقاتی ایجنسیاں اور استغاثہ ان ملزمین کے خلاف عدالتوں میں ٹھوس ثبوت و شواہد پیش کرنے اور اپنے الزامات کو درست ثابت کرنے میں ناکام ہوتا جا رہا ہے ۔ مسلسل ناکامیوں سے یہ اندیشے پیدا ہورہے کہ یہ ایجنسیاں سیاسی اثر و رسوخ کے تحت کام کر رہی ہیں۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کی شبیہہ ملزمین کی مسلسل برات کی وجہ سے متاثر ہوتی جا رہی ہے ۔ اس کے باوجود ایجنسیوں کو اس بات کا احساس نہیں ہو رہا ہے اور وہ صرف سیاسی آقاوں کے اشاروں پر کام کرنے میں مصروف ہیں اور ملزمین کو سزائیں دلانے کی بجائے ایسا تاثر ملتا ہے کہ یہ ایجنسیاں انہیں برا ت دلانے کیلئے کام کر رہی ہیں اور انہیں مقدمات سے بچنے میں مدد کر رہی ہیں۔ عوامی ذہنوں میں مسلسل تحقیقاتی ایجنسیوں کے تعلق سے شکوک و شبہات تقویت پا رہے ہیں ۔
گذشتہ دنوں مکہ مسجد بم دھماکوں کے مقدمہ میں فرقہ پرست ہندو تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ملزمین کو عدالت سے برات مل گئی ۔ اس کے بعد تلنگانہ میں وٹولی واقعہ کے ملزمین بھی بچنے میں کامیاب ہوگئے ۔ یہاں چھ مسلمانوں کو زندہ جلادیا گیا تھا ۔ یہاں بھی استغاثہ پوری طرح ناکام ہوگیا تھا ۔ اس کے بعد اب گجرات میں سابق وزیر مایاکوڈنانی بھی اپنے مقدمہ میں بری ہوگئیں۔ حالانکہ کوڈنانی کو نروڈا پاٹیہ قتل عام مقدمہ میں پہلے خصوصی عدالت میں سزا ہوئی تھی ۔ اس کے خلاف جب ہائیکورٹ میں اپیل کی گئی تھی تو استغاثہ اپنے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہا اور کوڈنانی کو عدالت سے برات مل گئی ہے ۔ حالانکہ دیگر ملزمین کی سزائیں برقرار رکھی گئی ہیں لیکن درجنوں ملزمین کو عدالت نے ناکافی شواہد کی بنیاد پر بری کردیا ہے ۔ اسی طرح مالیگاوں بم دھماکوں کے مقدمہ میں بھی ہندو تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ملزمین کو بچانے کی ہر ممکن کوششیں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ اس مقدمہ میں کئی ملزمین کو پہلے تو عدالتوں سے ضمانتیں مل گئیں ۔ یہاں بھی استغاثہ ان کی ضمانتیں روکنے میں کامیاب نہیں رہا اور یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ ان کو بھی استغاثہ کی ناکامی کی وجہ سے عدالتوں سے برات مل سکتی ہے ۔ انتہائی سنگین نوعیت کے ان مقدمات میں مسلسل ملزمین کی برات سے تحقیقاتی ایجنسیوںا ور خاص طور پر این آئی اے کی کارکردگی اور اس کی پیشہ ورانہ مہارت پر سوال اٹھنے لگے ہیں اور اس پر تنقیدیں ہو رہی ہیں۔
تحقیقاتی ایجنسیوں کو ہر طرح کی سہولیات دستیاب ہیں۔ انہیں تحقیقات کیلئے عصری ٹکنالوجی کی مدد حاصل ہے ۔ انہیں ملزمین کو گرفتار کرنے کا اختیار ہے ۔ شدت سے پوچھ تاچھ کی جاسکتی ہے ۔ شواہد اکٹھا کرنے میں بھی انہیں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں ہوتی اس کے باوجود اگر ملزمین انتہائی حساس نوعیت کے مقدمات میں بھی عدالتوں سے براء ت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ان تحقیقاتی ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال ہی کہا جاسکتا ہے ۔ جب مسلسل سنگین نوعیت کے واقعات پیش آئے ہیں اور ان میں تحقیقاتی ایجنسیاں کسی کو سزائیں دلانے میں کامیاب نہیں ہوپاتیں تو پھر متاثر ین سے انصاف کی امید ہی ختم ہوجائیگی ۔ ملزمین کے حوصلے بلند ہوجائیں گے اور ہو بھی رہے ہیں۔ این آئی اے اور دوسری تحقیقاتی ایجنسیوں سے حکومتوں کو جواب طلب کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان کی مہارت اور کارکردگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور ان ایجنسیوں کو حکومتوں کے سامنے جوابدہ بنایا جانا چاہئے ۔