سید عبدالصمد پرویز چشتی نیازی
تخلیق کائنات کی پہلی کرن نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’اے لوگو! تمہاری طرف بہت ہی برکتوں ، رحمتوں اور بخششوں کا ماہِ مبارک آرہا ہے۔ یہ وہ مبارک ماہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مہینوں سے بہتر ہے۔ جس کے دن باقی تمام مہینوں کے دنوں سے بہتر ہیں جس کے اوقات تمام مہینوں کے اوقات سے بہتر ہیں اور جس کی راتیں تمام مہینوں کی راتوں سے بہتر ہیں۔ یہ ضیافت خداوندی کا مہینہ ہے‘‘۔
اس مبارک مہینہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مہینہ فرمایا ہے۔ گویا اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ بندوں کو اپنا بندہ بنانا چاہتا ہے اور بندوں کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک سے ٹوٹا ہوا رشتہ پھر سے جوڑ لیں۔ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے سال بھر اس ماہ مبارک کی آمد کیلئے چشم براہ رہتے ہیں اور جو شخص ان بابرکت اوقات میں بھی رجوع الی اللہ کی دولت سے محروم رہے اور دریائے رحمت کی طغیانی کے باوجود حصولِ رحمت کیلئے اپنا دامن نہ پھیلائے اس سے بڑھ کر محروم کون ہوسکتا ہے۔
اللہ رب العزت کی رحمت و شفقت، عنایت و مہربانی اور فضل و کرم کے طفیل میں ہمیں ماہِ رمضان المبارک کی نعمتوں سے فیضیاب ہونے کا شرف حاصل ہورہا ہے۔ ماہِ رمضان جوکہ ماہِ صیام بھی ہے اور رحمتِ خداوندی کا پیام بھی ماہ نزولِ قرآن حکیم بھی ہے اور رحمت و بخشش کا امین بھی۔ دراصل یہ اللہ تعالیٰ سے قربت اور رحمتوں کا خزینہ بھی ہے۔
اس ماہِ مبارک و معظم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی مہمان نوازی کی طرف دعوت دی ہے۔ چنانچہ اس ماہ میں سانس لینا عبادت، سونا عبادت، کام کرنا عبادت ہے۔ اٹھنا بیٹھنا عبادت، لکھنا پڑھنا عبادت۔ غرض کہ مسلمان کا ہر کام عبادت ہے۔ اس ماہ میں ہر نیکی کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ پورا ماہ مبارک قبولیت دعا کا ماہ ہے۔ افطار کے وقت روزہ دار کی دعا قبول ہوتی ہے، اس لئے افطار کے وقت زیادہ سے زیادہ دعاؤں میں مصروف رہنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس ماہ کی بہت بڑی قدر و منزلت ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’روزہ محض میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر عطا کروں گا‘‘۔ دوسرے الفاظ میں روزہ خالص میرے لئے ہے اور بذات خود اس کی جزا ہوں‘‘۔ خوش قسمت اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو شب و روز خدا کی عنایات کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ہرچیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے‘‘۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص کسی معقول عذر شرعی کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی نہ رکھا بعد میں اس کا تمام عمر روزہ رکھنا اس ایک روزہ کا معاوضہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص روزہ دار کا افطار کرائے گا ویسا ہی اجر ملے گا جیسا روزہ دار کو‘‘۔ یہ اجر علحدہ ہے اور اس سے روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ روزہ ایک ایسا عمل ہے جس سے انسان کے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور روح کو تازگی اور شگفتگی ملتی ہے۔
روزہ، نمازتراویح، تلاوتِ قرآن مجید، ذکرِ الہٰی، توبہ و استغفار کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ روزہ ہر مسلمان عاقل و بالغ مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اس لئے اس کا نہایت ذوق و شوق سے اہتمام کیا جائے اور اس کو ظاہری و باطنی آداب کے ساتھ بجا لائے۔ بغیر عذر شرعی کے کسی حال میں بھی روزہ نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اسی طرح نماز تراویح رمضان المبارک کا خاص تحفہ ہے۔ اس کا بھی خوب ذوق و شوق کے ساتھ اہتمام کیا جائے۔ نماز پنجگانہ باجماعت ادا کریں اور ہر مسلمان کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ تکبیراولیٰ نہ چھوٹنے پائے یعنی جماعت کے وقت سے پہلے مسجد میں رہیں اور کوشش کریں کہ تکبیر تحریمہ نہ چھوٹے۔اس ماہِ مبارک میں قرآن مجید کا نزول ہوا ہے۔ اسی لئے رمضان المبارک کو قرآن شریف سے خاص نسبت ہے۔ زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہئے۔
شب قدر : اللہ تعالیٰ نے امتِ محمدیہ پر جہاں احسانات اور اپنی رحمتیں نازل فرمائی ہیں وہاں اس امت کو لیلتہ القدر یعنی شب قدر جیسے عظیم احسان اور نعمت سے نوازا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے۔ صرف اور صرف ایک رات کی عبادت سے انسان ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ثواب پا لیتا ہے۔شبِ قدر ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہے جو جہنم سے نجات کا عشرہ ہے۔ جو رمضان المبارک کی طاق راتوں یعنی اکیس، تئیس، پچیس، ستائیس ، انیتسویں شب میں جاگ کر عبادت کریں اور شبِ قدر کی تلاش کریں۔
اعتکاف : اعتکاف کے معنی ٹھہرنے کے ہیں اور شرعی اصطلاح میں دنیا کے سارے کاروبار کو ترک کرکے رضائے الہٰی کے لئے عبادت کی غرض سے مسجد میں ٹھہر کر عبادت کرنا، تلاوتِ قرآن شریف، ذکر الہٰی، تسبیح و تحلیل وغیرہ کرنے کو اعتکاف کہتے ہیں۔ جس نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کرلیا اس کو دو حج اور دو عمرہ کا ثواب ملے گا۔ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں دس دن کا اعتکاف سنت ہے اور اس میں روزہ شرط ہے۔
بہت ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس ماہ مبارک کی قدر پہچانیں اور قدر کریں اور بہت ہی محروم ہیں وہ لوگ جو اس دریائے رحمت سے بھی محروم رہے اور اپنی نجات و مغفرت کا سامان نہ کرسکے۔ ماہ رمضان کی برکتوں سے مستفید ہونے کے لئے سب سے اہم اور ضروری کام یہ ہے کہ گذشتہ کی ساری کوتاہیوں، غلطیوں، گناہوں اور لغزشوں سے توبہ کرلی جائے۔ ظاہر و باطن کو خوب پاک و صاف کرکے ماہ رمضان المبارک میں کثرت سے عبادت کی جائیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہیکہ ہم تمام مسلمانان عالم کو خلوص نیت، حسن عمل، پاکیزہ رزق عطا فرمائے اور محبت خدواندی کے جذبے سے سرشار ہوکر شعبان سے رمضان تک ہماری عبادتوں کو قبول فرمائے۔ آج کے معاشرے میں پھیلی ہوئی تمام برائیوں، غیرپسندیدہ اعمال کی فراوانی وغیرہ اسلامی نظریات کی یلغار کو روکنے کا باعث نہیں اور ماہ رمضان کے طفیل ہماری زندگی کو ایک صابرانہ زندگی بنا کر دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین ۔