ماہ رمضان کی بہاریں

مولانا محبوب عالم اشرفی
ماہ رمضان المبارک کے دن بھی برکتوں سے بھرے ہوئے ہیں اور راتیں بھی سعادتوں سے لبریز ہیں، یعنی اس ماہ کی ایک ایک ساعت بافیض ہے۔ اس ماہ مبارک میں خوش عملیوں کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں، شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے، انسانی ضمیر خود خضرِ راہ بن کر منزلِ حق کی رہنمائی کرنے لگتا ہے، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، مسلم محلہ جات رمضان کی بہاروں اور خوشبوؤں سے معطر ہو جاتے ہیں، مؤمنوں کی پیشانیاں سجدوں کے شوق سے چمکنے لگتی ہیں، مساجد آباد ہو جاتی ہیں، برائیوں کے اڈے ویران ہو جاتے ہیں، مشامِ جاں بہار ایمانی سے معطر ہو جاتی ہے، صدقہ و زکوۃ کا دَور چلنے لگتا ہے اور ایک دینے سے ستر ملتا ہے، امیر و غریب کا احساس مٹ جاتا ہے اور امیروں کے دِلوں میں غریبوں کی فاقہ کشی کا احساس بیدار ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے، جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ تمھیں پرہیزگاری ملے‘‘ (البقرہ۔۱۸۳) روزوں کی فرضیت کا اعلان کتنے بہترین اسلوب میں کیا جا رہا ہے اور کتنی دلنشین و مؤثر دعوت ہے۔ روزوں کی فرضیت اس امت کے لئے امتحان و آزمائش کا کوئی نیا مرحلہ نہیں، ہر دور اور ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا۔ روزہ کوئی نئی عبادت نہیں، بلکہ بڑی قدیم عبادت ہے۔ روزوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنی خود انسان کی، البتہ روزوں کی نوعیت اور تعداد مختلف تھی، ایام اور احکام جدا جدا تھے۔ اس امت پر ۱۰؍ شوال المکرم سنہ ۲ہجری میں روزہ فرض ہوا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روزے بڑے محبوب تھے، صرف ماہ رمضان ہی میں نہیں، بلکہ دیگر مہینوں میں بھی اکثر و بیشتر روزہ رکھا کرتے اور کبھی کبھی تو ’’صومِ وصال‘‘ رکھتے، یعنی افطار کئے بغیر مسلسل روزے سے رہتے۔

اسلام میں روزہ کا مقصد صرف اتنا نہیں ہے کہ انسان صبح سے شام تک کھانا پینا ترک کردے اور مجامعت سے باز رہے، روزے کا مقصد اصلی دراصل تطہیرِ نفس اور تزکیۂ قلب ہے۔ روزہ اسلام کے اوامر و نواہی پر عمل کرنے کا عملی مشق ہے، روزہ غریبوں کے دُکھ درد کے سمجھنے کی ایک مؤثر تدبیر ہے۔ پورے جذبۂ اخلاص کے ساتھ روزہ رکھنا حکم الہٰی کی اطاعت شعاری اور احکم الحاکمین کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار ہے۔ روزہ دار انسان بھوک سے مضطرب رہتا ہے، دستر خوان لذیذ کھانوں سے بھرا ہوتا ہے، ہمہ اقسام کے میوے موجود ہوتے ہیں، پیاس کی شدت ہوتی ہے، چہرہ پژمردہ ہوتا ہے، نگاہوں کے سامنے میٹھے اور ٹھنڈے جام ہوتے ہیں، مگر نفس کشی اور اطاعت شعاری کا جذبہ شدید بھوک اور پیاس کے باوجود قبل از وقت کھانے پینے کی نیت سے ہاتھ بڑھانا تو دور کی بات، اس قسم کا تصور بھی بندۂ مؤمن اپنے لئے گناہ سمجھتا ہے۔
روزے کی اس حیرت انگیز کیفیت کا اندازہ کیجئے کہ جب ایک بندۂ خدا اوقات کی بھرپور پابندی کے ساتھ ایک ماہ مسلسل اپنے نفس کا محاسبہ کرے گا اور جب اس کا سرکش نفس روزے کی تربیت گاہ میں خداترسی اور اطاعت شعاری کا عادی اور خوگر ہو جائے گا، تو وہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں اس بات کی کوشش ضرور کرے گا کہ وہ شرعی حدود کی پابندی کرے اور اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق اپنی زندگی کے شب و روز گزارے۔ یہی وہ روزہ کا فلسفہ ہے، جس کی جانب قرآن عظیم نے ’’لعلکم تتقون‘‘ (تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ) سے اشارہ فرمایا ہے۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ بحالتِ روزہ انتہائی اضطراب کے عالم میں حکم خداوندی پر عمل کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ روزہ دار بندہ کمرے میں یا کسی صحرا اور ویرانے میں لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوتا ہے، جہاں اسے کوئی دیکھ نہیں رہا ہوتا، مگر کیا مجال کہ ایک گھونٹ پانی بھی حلق کے نیچے اُتارے۔ یہاں خود اس کا ضمیر اس کی نگرانی کرتا ہے، اس پر خوف الہٰی طاری اور جذبۂ اخلاص کارفرما ہوتا ہے۔ اس طرح روزے کے ان صبر آزما ایام کے بعد اس کے دل میں اخلاص و اطاعت کا جذبہ ایک ناقابلِ شکست حقیقت بن کر جاگزیں ہو جاتا ہے۔ مشکل ترین حالات میں بھی شریعت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتا، بلکہ پوری عزیمت کے ساتھ اسلامی اصول و ضوابط کی پابندی ہی عین ایمان اور مطلوبِ اسلام ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اُترا، لوگوں کے لئے ہدایت و رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں، تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے‘‘ (البقرہ۔۱۸۵) روایت کے مطابق قرآن کریم کے نزول کی ابتداء رمضان شریف میں ہوئی، یعنی پورا قرآن کریم ماہِ رمضان مبارک کی ’’شب قدر‘‘ میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اُتارا گیا اور بیت العزت میں رہا، جو اس آسمان پر ایک مقام ہے اور پھر اقتضاء حکمت اور مرضی الہٰی کے مطابق تدریجاً حضرت جبرئیل علیہ السلام لاتے رہے اور یہ سلسلۂ نزول تیئس (۲۳) برس کی مدت میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔
اس عالم میں ماہِ رمضان کی برکتوں کا ظہور ہوا اور اس میں قرآن عظیم صحیفۂ آسمانی کے طورپر نازل ہوا۔ جب رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا شناسی کا قرآنی پیغام پیش کیا تو ظلم و بربریت اور غلامی و بت پرستی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی انسانیت کی پیشانی پر مسرتوں کی لہر دوڑ گئی۔ حق آگیا باطل مٹ گیا۔ قرآن عظیم ابدی سعادتوں کا سرچشمہ بن کر آج بھی ہمارے دِلوں اور ہاتھوں میں موجود ہے۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر وہ عظیم نعمت ہے، جس کی عظمتوں اور برکتوں کا اندازہ لگانا بندوں کے دسترس میں نہیں۔