دستگیر نواز
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اولاد کی پرورش میں سب سے زیادہ تکلیف ماں اٹھاتی ہے۔ ماں جس طرح اپنی ہستی کو بھلاکر بچے کی پرورش کرتی ہے، جس شفقت سے اپنا خون جگر دودھ کی شکل میں پلاتی ہے اور بچے کی خاطر وہ اپنے دن کا آرام اور رات کی نیند مسلسل قربان کرتی ہے، اس کی مثال کوئی دوسری ہستی پیش نہیں کرسکتی۔ قرآن کریم نے ماں باپ دونوں کے ساتھ نیک سلوک کی تاکید کرتے ہوئے ماں کی تکالیف کا پراثر اشارہ کیا ہے کہ باپ کے مقابلے میں تمہاری خدمت و اطاعت اور بہتر سلوک کی زیادہ مستحق تمہاری ماں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ ’’اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کی۔ اس کی ماں تکلیف اٹھا اٹھاکر اس کو اپنے پیٹ میں لئے پھری اور تکلیف ہی سے جنا اور پیٹ میں اٹھانے اور دودھ پلانے کی یہ (تکلیف دہ) مدت ڈھائی سال ہے‘‘۔ (سورۃ الاحقاف)
قرآن کریم کے اس انداز بیان کی روشنی میں یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ اولاد کی خدمت، محبت، اطاعت و فرماں برداری اور حسن سلوک و شکر گزاری کی زیادہ مستحق ماں ہے۔ اس نے اولاد کی پیدائش اور پرورش میں زبردست تکلیفیں اٹھائی ہیں، بے مثال قربانیاں دی ہیں اور شب و روز اپنی ہستی کو مٹاکر اولاد کو پالا پوسا ہے۔ بلاشبہ پرورش میں باپ کا بھی حصہ ہے، لیکن باپ کی محنتوں اور قربانیوں سے کہیں بڑھ کر ماں کی جاں فشانی اور جاں نثاری کا پلہ بھاری نظر آتا ہے۔ اس حقیقت کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی واضح طورپر بیان فرمایا ہے کہ ’’اولاد کو چاہئے کہ وہ ماں کی فرمائش، خدمت، ادب اور اس کے ساتھ حسن سلوک خاص خیال رکھے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ماں حاضر ہوئی اور اپنے شوہر کا حال یوں بیان کیا کہ ’’میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے اور چاہتا ہے کہ یہ بچہ بھی لے لے۔ یہی صدمہ کیا کم ہے کہ انھوں نے مجھے طلاق دے دی اور اب مجھے پریشان کر رہے ہیں کہ یہ بچہ بھی انھیں دے دوں، جب کہ یہی میرا سہارا ہے اور میرے جگر کا ٹکڑا ہے، میں اس صدمہ کو کس طرح برداشت کروں گی؟‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قرعہ اندازی کرلو‘‘۔ آپﷺ نے لڑکے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ تمہارا باپ ہے اور یہ تمہاری ماں ہے، تم جس کو چاہو اس کے ساتھ ہو جاؤ اور بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لو‘‘۔ لڑکے نے بڑھ کر ماں کا ہاتھ پکڑ لیا، جس پر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کی ماں سے فرمایا ’’جاؤ جب تک تم دوسرا نکاح نہ کرلو، تم سے کوئی اس کو چھین نہیں سکتا‘‘۔
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں کھجور کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ لوگوں نے دیکھا کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کھجور کے درخت میں شگاف کرکے جمار (وہ سنگ ریزے جو حجاج کرام حج کے مناسک ادا کرتے وقت پھینکتے ہیں) نکال رہے ہیں۔ لوگوں نے کہا ’’اس مہنگائی کے دور میں آپ کھجور کے درخت میں شگاف کرکے جمار نکال رہے ہیں اور درخت کو بیکار کرہے ہیں، جب کہ کھجور کا درخت بڑا قیمتی ہے‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’میرے بھائیو! میری ماں نے مجھ سے جمار کی فرمائش کی ہے، ان کی فرمائش میں بھلا کس طرح رد کرسکتا ہوں‘‘۔
مشہور تابعی حضرت محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ اپنی والدہ کے ادب و احترام اور شوق کا بہت خیال رکھتے تھے۔ جب کبھی والدہ محترمہ کے لئے کپڑا خریدتے تو کپڑے کی نرمی اور خوبصورتی پر نگاہ رہتی۔ یہاں تک کہ عید کے موقع پر اپنے ہاتھوں سے اپنی ماں کے کپڑے رنگتے۔ علاوہ ازیں ماں کے ادب و احترام کا اتنا خیال رکھتے کہ ان کے سامنے کبھی اونچی آواز میں نہ بولتے، یعنی اس طرح گفتگو کرتے کہ جیسے کوئی راز کی بات کہہ رہے ہوں۔