ماں بن گئی بیٹے کی لا ٹھی

شادی سے ایک دن قبل دو پاؤں اور ایک ہاتھ سے محروم نوجوان کی دردناک داستان
زندگی کا ہر لمحہ تکلیف دہ، ورنگل کے نوجوان محمد عبدالحفیظ کا احساس

حیدرآباد ۔ یکم ؍ فبروری ۔ انسان اپنی دولت، شہرت، عزت، طاقت، خوبصورتی اور دیگر خوبیوں پر بہت نازاں رہتا ہے۔ وہ اپنی خوشیوں میں ایسا مگن رہتا ہیکہ اسے اس بات کا احساس ہی نہیں رہتا کہ آنے والے برسوں، مہینوں، دنوں اور گھنٹوں تو دور کی بات ہے، لمحات میں کیا ہونے والا ہے۔ وہ سوچتا کچھ ہے اور اس کے ساتھ ہوتا کچھ ہے۔ غرض انسان قدرت کے سامنے بے بس و مجبور ہے۔ آج آپ کے سامنے ایک ایسے نوجوان کی کہانی پیش ہے جس کی زندگی 5 مئی 2012ء تک بہت خوشگوار گذر رہی تھی، گھر میں ماں باپ، بھائی بہن اور رشتہ داروں کے قہقہے گونج رہے تھے۔ اللہ رب العزت نے اسے اچھی صحت سے بھی نوازا تھا۔ اگرچہ ویلڈنگ کا کام کرتے ہوئے ماہانہ 3000 روپئے کما لیا کرتا تھا لیکن اس چھوٹی سی تنخواہ میں بھی وہ کافی مطمئن تھا۔ زندگی بڑے اطمینان سے گذر رہی تھی۔ ماں باپ اور وہ ہر حالت میں شکرخداوندی بجا لاتے تھے۔ اس خوبصورت نوجوان کی شادی بھی طئے ہوگئی۔ جیسے جیسے شادی کے دن قریب آرہے تھے اس کی خوشی کو دیکھ کر اس کے ماں باپ کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ ایک بہن اور بھائی بھی خوش تھے کہ ان کا چھوٹا بھائی زندگی کے ایک نئے مرحلہ میں داخل ہورہا ہے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ شادی کے عین ایک دن قبل برقی شاک کی زد میں آجانے کے باعث رشتہ ازدواج میں بندھ کر زندگی کی ایک نئی شروعات کرنے والا یہ نوجوان شدید جھلس گیا اور اس بھیانک حادثہ میں وہ نہ صرف زندگی بھر کی خوشیوں سے بلکہ اپنے ایک ہاتھ اور دو پیروں سے محروم ہوگیا۔ آج وہ اپنے گھر کے ایک کونے میں مجبور و بے بس انداز میں پڑا ہوا ہے۔

تاہم اسے اللہ عزوجل کی رحمت سے کوئی مایوسی نہیں ہے۔ اسے یقین ہیکہ ایک دن وہ اپنے پیروں پر پھر سے کھڑا ہوگا اور اس خالق کائنات سے اس نے جو امید لگائی ہے وہ امید اس کیلئے ہاتھ ثابت ہوگا۔ ورنگل کے موضع ماری پیڈا کے رہنے والے اس نوجوان محمد عبدالحفیظ سے فون پر گفتگو کی گئی تو اس نے اپنی دردبھری داستان سناتے ہوئے بتایا کہ 6 مئی 2012ء کو اس کی شادی مقرر تھی۔ ایک دن قبل یعنی 5 مئی کو وہ شادی کی تیاریوں کے سلسلہ میں ایک رشتہ دار سے فون پر بات کررہا تھا کہ اندراماں اسکیم کے تحت ان کے خاندان کو حاصل گھر پر سے گذرنے والے 33 کیلو واٹ برقی تار کی زد میں آ گیا۔ اس وقت رات کے 10 بج رہے تھے۔ حادثہ کے مقام پر ہی اس نوجوان کا ایک ہاتھ اور دو پاؤں بھی شدید جھلس گئے۔ بعد میں ڈاکٹروں کے مشورہ پر دونوں پاؤں کو گھنٹوں سے علحدہ کردیا گیا۔ محمد عبدالحفیظ نے بتایا کہ ان کے والد 55 سالہ تانڈو میاں زرعی مزدور ہیں۔ بڑے بھائی ویلڈنگ کا کام کرتے ہیں۔ بہن حیدرآباد میں مقیم ہے اور شادی ہوچکی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک ماہ تک ہوش میں نہیں تھے۔ کھمم کے خانگی ہاسپٹل میں علاج ہوا جس پر 4 لاکھ روپئے کے مصارف آئے اور اس معاملہ میں دوست احباب نے بھرپور تعاون کیا۔ عبدالحفیظ کے مطابق علاج کے باعث ان کے خاندان پر کافی قرض ہوگیا ہے۔ انہوں نے انتہائی غمگین لہجہ میں بتایا کہ برقی شاک کی زد میں آنے سے میری زندگی تباہ ہوگئی۔

اپنے طور پر اپنی جگہ سے ہٹ بھی نہیں سکتا۔ ماں علیمہ بیگم میری خدمت کرتی ہیں۔ نہلانے، دھلانے سے لیکر کھلانے تک ہر کام ماں ہی انجام دیتی ہے۔ محمد عبدالحفیظ روتے ہوئے بتایا کہ وہ دن تمام گھر میں پڑے رہتے ہیں۔ لیکن ذکر خدا میں مصروف رہتے ہیں اس نوجوان نے روندھی ہوئی آواز میں بتایا کہ حیدرآباد میں ڈاکٹروں نے انہیں PROSTHETIC LIMBS لگانے کا مشورہ دیا ہے لیکن اس کیلئے 3.5 تا 4 لاکھ روپئے کا خرچ بتارہے ہیں چونکہ وہ پہلے ہی سے قرض میں مبتلاء ہیں اس لئے مصنوعی پیر نصب کروانے کے بارے میں تصور کرنا بھی ان کیلئے محال ہے۔ بہرحال محمد عبدالحفیظ کی درد بھری داستان سن کر یہی سوچنے لگے کہ ہم کتنے خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنی تکلیفوں کا احساس تو ہوتا ہے لیکن دوسروں کے درد کو محسوس کرنا نہیں چاہتے۔ کاش! ہم ہر حال میں رب کائنات کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے ہر حکم کی تعمیل کو اپنا نصب العین بنا لیں تو امید ہیکہ وہ ہیں ہر حادثہ سے محفوظ رکھے گا۔ نوٹ : عبدالحفیظ سے فون نمبر 9989663250 پر ربط کیا جاسکتا ہے۔ abuaimalazad@gmail.com