ہم میں سے ہر شخص عالمی سطح پر مسلمانوں کی زبوں حالی اور بے وقار زندگی کے بارے میں فکر مند ہے۔ تعلیمی انحطاط اور معاشی پستی نے مسلمانوں کو انسانی سماج کی نظروں سے گرادیا ہے۔ وہ اپنے ہم زمانہ افراد کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلنے کے اہل نہیں رہے۔ غیر مسلم، مسلمانوں کی ہم نشینی پر فخر کرنا تو درکنار، غیر مسلم اپنی محفل میں عزت و احترام دینے تیار نہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ نامور مسلمانوں نے اپنے علم، ہنر، فن، صلاحیت اور قابلیت کا لوہا منوایا ہے اور اپنے شعبہ میں امتیازی مقام بھی رکھتے ہیں، مگر ایسے افراد کی تعداد معدودے چند ہے۔
پستی کے مختلف اسباب ہیں، بنیادی وجہ جس پر تمام مفکرین، دانشور اور عقلاء متفق ہیں کہ مسلمانوں کی تعلیمی پستی اور معاشی انحطاط نے مسلمانوں کو سالہا سال پیچھے چھوڑ دیا، لیکن ان سب میں سب سے اہم و قابل ذکر بات یہ ہے کہ آج مسلمان فکر صحیح سے محروم ہو گئے ہیں، مقصد سے غافل ہو گئے، خواب و خیال میں کھو گئے، حقیقت سے دور ہو گئے اور لایعنی و جزئیات میں مشغول ہو گئے۔ یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ امت مسلمہ اجتماعی عذاب سے محفوظ ہے، جس طرح سابقہ امتیں اپنی نافرمانی و سرکشی کی بناء پر خدا کے ہولناک عذاب کے حقدار ہوئے، آن واحد میں تباہ و تاراج ہو گئے، صفحہ ہستی سے ان کا نام و نشان مٹ گیا اور تاقیامت وہ عبرت کا نشان بن گئے۔ اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عالمگیر امت کو اس طرح کے عذاب سے محفوظ رکھا۔ ظاہری طورپر یہ امت کسی عذاب و قہر میں مبتلاء ہوکر آن واحد میں مٹنے والی نہیں ہے، مگر یہ امت معنوی عذاب میں مبتلاء ہے۔ نہ جانے کونسی غلطی سرزد ہوئی، جس کی پاداش میں اللہ تعالی نے اس امت کو فکر صحیح کی عظیم نعمت سے محروم کردیا۔ یہ امت اس بے یار و مددگار مسافر کی مانند ہے، جس کو اپنی منزل کا پتہ نہیں، اس کو اپنے سفر کا مقصد معلوم نہیں، اس کا کوئی رہنما نہیں، جو اس کی بروقت دستگیری کرسکے۔ وہ نامعلوم منزل کی طرف اپنے قدم بڑھائے جا رہا ہے، زاد راہ اس کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ اس کے اس بے مقصد و غیر متعین سفر حیات میں جب بھی وہ کسی آبادی و کمیونیٹی سے گزرتا ہے، اس مسافر کی حالت زار پر ترس کھاکر اس آبادی کے لوگ اس پر نوازش کرتے ہیں اور وہ اسی نوازش پر خوش و خرم ہوکر خدا کا شکر بجالاتا ہے اور غیب سے رزق فراہم کئے جانے پر بارگاہ الہی میں سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔ ’’ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ‘‘ (جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، وہ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے) ’’ویرزقہ من حیث لایحتسب‘‘ (اور وہ ایسے مقام سے رزق عطا کرتا ہے، جہاں اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا)
اے مسلمان! تو اپنی حقیقت کو بھول گیا، اپنے مقصد حیات کو فراموش کردیا، وجہ تخلیق سے بے خبر ہو گیا۔ تو انسان ہے، لیکن عام انسانوں کی طرح نہیں، تیری شان الگ، تیری پہچان منفرد، تیری رفتار سب سے ممتاز، تیری پرواز سب سے بلند، تیرا مقصد سب سے اونچا ، تیری منزل سب سے اعلی ہے۔ تو باز ہے، جس کی پرواز عام پروازوں سے بلند ہے۔ تو شاہین ہے، تیرا آشیانہ سب سے اونچا ہے۔ تو مشک ہے، جو عام خوشبوؤں سے ممتاز ہے، تو صحرا کا شیر ہے، جو جھوٹے شکار کی طرف نظر نہیں دوڑاتا۔ تو یاقوت ہے، عام پتھر تیرے جیسے نہیں ہوسکتے۔
اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ایک عظیم لائحہ عمل کی ضرورت ہے، جس کی بنیاد ان ہی اصولوں پر ہونی چاہئے، جن اصولوں پر اسلام کا آغاز ہوا تھا۔ اسلام کی ابتداء اور اس کی ترقی پر غور و فکر کرتے ہوئے مستقبل کی زندگی کے لئے ایک عظیم و جامع پلان ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
یاد رکھئے! اسلام نے ساری خرابیوں کو دور کرنے، فتنہ و فساد، شر و طغیان، ظلم و زیادتی کے خاتمہ کے لئے اور دنیا میں ترقی و تقدم، کامیابی و کامرانی، حکمرانی و جہانبانی کے لئے ایک ہی نسخہ کیمیاء بیان کیا ہے۔ اسی کو اختیار کرکے انسان اس دنیا میں ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکتا ہے، اپنے عزائم و مقاصد میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔ اس نسخہ کیمیاء کو نظرانداز کردے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت و قوت اس کو انحطاط و تنزل کے دلدل سے نکال نہیں سکتی۔ وہ نسخہ کیمیاء حیات نو کی پہلی کرن ہے۔ قحط زدہ، خشک و خاردار سرزمین پر بارش کی پہلی بوند ہے، ڈوبتی انسانیت کے لئے پہلا اور آخری سہارا ہے، اجڑے ہوئے گلستاں میں تجدید حیات کی پہلی امید ہے۔ وہ درحقیقت خدا کا پہلا پیغام ہے، جو مردہ انسانیت کی ہر سطح پر فلاح و بہبود کے لئے بھیجا گیا۔ وہ پہلی وحی ہے، جو اس دنیا کو قعر مذلت سے نکال کر مقصد حیات پر گامزن کرنے والی عظیم معجزاتی، محیر العقول جامع ہستی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ ’’پڑھئے اپنے رب کے نام سے، جس نے (کائنات کو) پیدا کیا، جس نے انسان کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھئے آپ کا رب نہایت مہربان ہے، جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی، انسان کو وہ علم عطا کیا کہ جس سے وہ ناواقف تھا‘‘۔ (سورۃ العلق)
پڑھائی کو رب کے نام سے جوڑکر خالق و مخلوق، عابد و معبود کے باہمی حقیقی ربط و تعلق کو قائم کرنے پر تلقین کی گئی اور بتایا گیا کہ پڑھائی ہی رب کی معرفت کا ایک عظیم ذریعہ ہے۔ یہی ربط و تعلق ہی خلاصہ کائنات اور فلسفہ حیات ہے۔ پھر انسان کی گوشت کے لوتھڑے سے تخلیق کی طرف اشارہ کرکے اپنی ذات میں غیر محسوس پیوست و پوشیدہ خدا کی عظیم نشانیوں پر غور کرنے کی دعوت دی گئی، جس سے خود بخود آفاق کائنات میں اللہ کی واضح و نمایاں آیات و نشانیوں پر غور و فکر کرنے کا اشارہ ملتا ہے۔ پھر مزید پڑھنے کا حکم دے کر ضروری و بنیادی تعلیم کے ساتھ مزید اعلی سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی۔ ’’وربک الاکرم‘‘ کے ذریعہ یہ پیغام بھی دے دیا کہ تعلیم حاصل کرو، پھر تم رب کی نوازشات، مراحم خسروانہ، احسانات، فضل و کرم کی برسات کے جلوے اپنی زندگی میں پاؤ گے۔ خصوصیت کے ساتھ قلم کے ذریعہ تعلیم دینے کی اپنی بیش بہا نعمت کا ذکر کرکے یہ واضح کردیا کہ کوئی ملک و قوم طاقت و قوت کے ذریعہ بام عروج پر نہیں پہنچ سکتی، ترقی کا زینہ صرف اور صرف علم اور قلم ہے۔ حالات کسی قدر کشیدہ و پریشان کن کیوں نہ ہوں، تلوار اٹھانے سے زیادہ کارگر قلم کا صحیح استعمال ہے۔ ’’علم الانسان مالم یعلم‘‘ (انسان کو وہ علم سکھایا، جس سے وہ نابلد تھا) کے ذریعہ ابتداء تا انتہاء تحصیل علم پر زور دیا۔ یہ فکر دی کہ دنیا میں اگر کوئی چیز حاصل کرنے یا کسب کے قابل ہے تو وہ صرف علم ہے۔ لوگ مال و دولت، جاہ و حشمت، شہرت و منصب کے حصول کے لئے کد و کاوش کرتے ہیں۔ حقیقت میں کدوکاوش علم جیسی عظیم نعمت کے حصول کے لئے ہونی چاہئے۔ پھر علم کی روشنی اس کے سینے میں گھر کرجاتی ہے تو نہ صرف اس روشنی سے اس کے ذہن و دماغ اور قلب و نگاہ روشن منور ہوتے ہیں، بلکہ اس سے اس کے اخلاق و کردار بھی سنورتے ہیں اور اس روشنی سے اس کا گھر، خاندان، قبیلہ اور دیگر افراد کی زندگی میں روشنی کے چراغ جلتے ہیں۔
اللہ تعالی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو علم، دولت اور حکومت میں اختیار دیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی حقیقت شناس نگاہوں نے علم کو چن لیا۔ آپ کی دور بینی و حقیقت آگاہی نے دولت اور اقتدار پر علم و حکمت کو ترجیح دی، جس کی برکت سے اللہ تعالی نے انھیں ساری دنیا کی بادشاہت سے سرفراز فرمایا اور ساری زمین کے خزانے عطا کردیئے۔
آج اکثر و بیشتر ماں باپ اپنی اولاد کو کسی اسکول یا مدرسہ میں شریک کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت سے عہدہ برآ ہو گئے۔ بچہ تو بچہ ہے، والدین کو بھی معلوم نہیں کہ بچے کی منزل کیا ہے، اس کو کس راستے پر گامزن کرنا ہے، اس کی فطری صلاحیتوں کو کیسے اجاگرکرنا ہے، اس کے طبعی رجحان و میلان کو دیکھتے ہوئے اس کے لئے کس شعبۂ حیات کا انتخاب کرنا ہے اور کس طریقے سے اس کی شخصیت کی تعمیر کرنا ہے۔ ماں باپ اور سرپرستوں کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اولاد کی تعلیم و تربیت کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہو جائیں۔ ماں باپ کی حقیقی کامیابی و کامرانی یہی ہے کہ ان کی اولاد اس دنیا میں بھی کامیابی کی منازل طے کرے اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حقدار ہوں۔