ماوسٹوں کی کارروائی

تشدد کی وجہ محرومیاں گر ہوں تو پھر حاکم
وجہ کو دور کرنے پر توجہ دیں تو بہتر ہے
ماوسٹوں کی کارروائی
ملک میںاگرچیکہ حالیہ چند مہینوں کے دوران عوام کی زندگی خیریت سے گذر گئی ہر چند کہ دہشت گردی کے بڑے حملوں کا بہت بڑا خطرہ پایا جاتا تھا لیکن ماوسٹوں کی سرگرمیوں نے چھوٹے چھوٹے واقعات کو رونما کیا ہے۔ چھتیس گڑھ میں ماوسٹوں کی سرگرمیوں نے چھوٹے چھوٹے واقعات کو رونما کیا ہے۔ چھتیس گڑھ میں ماوسٹوں کی تازہ کارروائی میں سنٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے 15 جولائی کے بشمول 20 سیکوریٹی ارکان ہلاک ہوئے ہیں۔ چھتیس گڑھ کے ضلع سکما میں گھات لگا کر کئی گئی یہ کارروائی بہت بھیانک تھی۔ سیکوریٹی فورسیس کی ٹیم پر گھات لگا کرحملے کے واقعات نئے نہیں ہیں لیکن مضبوط ماوسٹوں کی ٹولیوں نے ملک کے اہم سیکوریٹی ڈھانچہ سے وابستہ جوانوں کو آسانی سے گھات لگا سکتے ہیں تو یہ عصری دنیا اور سیکوریٹی فورسیس کے درمیان عصری آلات کے فقدان کا مظہر معلوم ہوتا ہے۔ سی آر پی ایف کی 80 بٹالین اور ضلع فورسیس اس حساس ضلع کے جنگلاتی علاقہ میں پیدل سڑک کا سفر کررہی تھی۔ ماوسٹوں نے ان کی راہ میں طاقتور زمینی سرنگ دھماکجہ کیا اور بعدازاں ان پر اندھادھند فائرنگ کی۔ یہ حملہ اس مقام کے قریب کیا گیا جہاں گذشتہ سال 25 مئی کو اس طرح کے ماوسٹ محکمہ میں کانگریس کے سینئر لیڈر اور دیگر جوان ہلاک ہوئے تھے۔ پولیس اور سیکوریٹی فورسیس ہر واقعہ کے بعد تلاشی مہم کو شدت سے جاری رکھتی ہے لیکن ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ یہ حیرت انگیز بات ہیکہ اس حملہ میں 300 ماوٹسوں نے حصہ لیا تھا۔ ماوسٹوں کی سرگرمیوں کو کچلنے کی تیاری کرنے والی سیکوریٹی فورسس کو ہر حال ہی میں ان کے حملوں کا شکار ہونا پڑتا ہے

لیکن علاقوں میں عوام کے اندر خوف ضرور ہے لیکن اس خوف کی وجہ سے ڈر کر گھروں میں بیٹھ جانے کے بجائے لوگوں نے انتہائی ذمہ داری اور اپنے روزانہ کے روزگار کو جاری رکھا ہے۔ عوام الناس کی بے خوف زندگی سیکوریٹی جوانوں کو پیام دیتی ہے کہ وہ اپنے لئے ایسی تیاری کریں جس سے ان کی زندگیوں پر کوئی آنچ نہ آئے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ماوسٹوں کے مقابل عصری تقاضوں سے آراستہ نہیں کیا گیا تو انسانی جانوں کا خطرہ برقرار رہے گا۔ ماوسٹوں کی کارروائیاں مقامی عوام کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہوتیں اور مقامی عوام نے یہ انتہائی اقدام اس لئے اٹھایا ہے کیونکہ انہیں حکومت کی ناانصافیوں نے مشتعل کردیا ہوتا ہے۔ چھتیس گڑھ کے قیام کے بعد حکومتوں نے یہاں کے عوام کی ضروریات کی تکمیل کے معاملہ میں کوئی دھیان نہیں دیا ہے۔ اس لئے چھتیس گڑھ کے گھنے جنگلات ماوسٹوں کی پرورش کا بہترین مقام ثابت ہونے لگے ہیں۔ اب ان ماوسٹوں کے علاقوں میں ایسے اسکول بھی قائم ہورہے ہیں جہاں بچوں کو دی جانے والی تعلیم اور انگریزی کی حروف تہجی کے معنی و مفہوم مختلف ہیں۔ عام اسکولوں میں اگر طالب علم کو آنے کے معنی ایپل ہوتا ہے نکسلائیٹس کی جانب سے چلائے جانے والے اسکولوں یا اس علاقوں کے اسکولوں میں اسے کا منعی آرمس (ہتھیار) ہوتے ہیں۔ ’’بی‘‘ کو ’’ہم‘‘ سے مراد لیا جارہا ہے۔

جب عام والدین اپنے بچوں کو اسے بی سی ڈی کے مطلب ایپل، بال، کیاٹ کی نشاندہی سے کراتے ہیں تو نکسلائیٹس علاقوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو اے بی سی ڈی کا مطلب الگ ہوتا ہے۔ یہ سب سیکوریٹی فورسیس اور پولیس فورس کی آنکھوں یا ناک کے نیچے جاری ہیں۔ پھر بھی پولیس اور سیکوریٹی فورسیس کو ماوسٹوں کے کیمپوں کے خلاف کارروائی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ جب کسی علاقہ کے طالب علم کواے کو آرمی، آرمس اور ایکس(کلہاڑی) ’’بی‘‘ کو ہم ، بگریگیڈ، بٹالین، بلاسٹ معلوم ہو اور سی کو یہ لوگ چار و مجمدار، کمیونسٹس، کامریڈ پڑھتے ہیں۔ ڈی ان کے نزدیک ڈمپ ڈینجر کہلاتا ہے اور آئی کو انٹلیجنس، انسر جینس پڑھا جاتا ہے تو پھر ایل کو لینڈ مائن، لبریشن وغیرہ پڑھیں گے۔ ماوسٹوں کے غلبہ والے اسکولوں میں انگریزی حروف تہجی کا مطلب الٹا ہورہا ہے تو پھر نوخیز ذہنوں میں ملک کی سیکوریٹی، حکمراں طاقتوں کے خلاف نفرت اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے مسلح جدوجہد کی بھی تربیت و درس حاصل کرنا ہوگا۔ ہر ریاستی سطح پر ایک انٹلیجنس بیورو کام کرتا ہے۔ اس کے کارکرد ہونے پر اس وقت سوال اٹھتا ہے جب کوئی بڑا حادثہ اور حملہ ہوتا ہے۔ چھتیس گڑھ کے آج کے واقعہ میں 20 جوانوں کی موت اسی انٹلیجنس کی ناکامی کیا جاسکتا ہے۔ انٹلیجنس شعبہ ہو یا کوئی بھی سیکوریٹی ادارہ حکمرانوں کی بدعنوانیوں کی وجہ سے ابتری کا شکار ہے۔ سیکوریٹی فورسیس کو ترقیاتی منصوبوں سے آراستہ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتا ہے

لیکن جس حکوم میں دفاعی امور کو بدعنوانیوں سے انجام دیا گیا ہو وہاں اچھائی اور بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی۔ سرکاری اداروں کے کردار کو آئے روز بے نقاب ہوتا دیکھا گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس ملک کی دفاعی تیاری پر کئی سوال اٹھائے گئے ہیں۔ ماوسٹوں کی کارروائیاں ہوں یا کسی اور انتہاء پسند تنظیموں کی سرگرمیاں ان کے پیچھے ناانصافی اور استحصالی حالات کا شکار افراد ہی ہوتے ہیں۔ اگر کسی علاقہ کے عوام محرومیوں کا شکار ہوں تو وہ مسلح جدوجہد کا سہارا لے کر اپنی کارروائیوں کو اپنا حق متصور کرتے ہیں۔ ایسے میں حکومت اور اس کا سارا معاشی نظام کئی سوال کھڑا کرتا ہے۔