ماورائے سخن بھی ہے اِک بات

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’خاموشی ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے‘‘۔ دل کی روشنی اور تاریکی زبان ہی پر موقوف ہے، اس سے دل روشن بھی ہوتا ہے اور تاریک بھی۔ زبان کو صحیح طریقے سے اور نیک کاموں میں استعمال کرو، سچ بولو، حق کی گواہی دو، تبلیغ کرو، لوگوں کو وعظ و نصیحت کرو تو اس سے دن روشن ہوگا، اس کے برخلاف زبان کا غلط استعمال کرو، جھوٹ بولو، جھوٹی گواہی دو، غیبت کرو، طعنہ زنی کرو، فحش گوئی کرو تو اس سے دل تاریک ہو جاتا ہے، بلکہ ایمان کی درستی کا انحصار بھی اسی پر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایمان درست نہیں ہوتا، جب تک دل درست نہ ہو اور دل درست نہیں ہوتا، جب تک زبان درست نہ ہو‘‘۔ یہی زبان جنت و دوزخ میں لے جاتی ہے، یہی زبان نجات اور عذاب کا سبب بنتی ہے، یہی آدمی کو مؤمن اور کافر بناتی ہے، یہی گناہوں میں مبتلا کرتی ہے اور یہی گناہوں کو مٹاتی ہے۔

خاموشی کے کئی فائدے ہیں، اس سے انسان کا وقار قائم ہوتا ہے، اس کے برخلاف بک بک کرنے والا بے وقار ہو جاتا ہے، زیادہ بولنے سے دل سخت اور بدن سست ہو جاتا ہے، رزق میں تنگی آتی ہے۔ زیادہ بولنے سے زبان پر قابو نہیں رہتا، زبان بے قابو ہوکر کوئی بات منہ سے ایسی نکل جاتی ہے، جو آفت اور مصیبت کا سبب بن جاتی ہے۔انشاء اللہ خاں انشاؔء کا واقعہ بہت مشہور ہے۔ اردو کے  بہت بڑے شاعر اور عربی و فارسی پر عبور رکھتے تھے۔ ایک روز روانی میں ایک لفظ ان کی زبان سے ایسا نکل گیا، جس نے ان کو زندگی بھر جیل میں سڑا دیا۔ یہ اپنی لیاقت کی وجہ سے ایک ریاست میں دربار شاہی سے وابستہ ہو گئے تھے اور والی ریاست ان کا بڑا قدرداں تھا۔ ایک دن دربار میں خاندانی نجابت اور نجیب الطرفینی کی بات چل رہی تھی، والی ریاست نے کہا: ’’کیوں انشاؔء! ہم بھی تو نجیب ہیں؟‘‘۔ انشاؔء فوراً بول پڑے: ’’جی بالکل، حضور تو انجب ہیں‘‘۔ انشاؔء کے ذہن میں نجیب کا اسم تفضیل انجب تھا، یعنی بڑا نجیب الطرفین، لیکن عربی میں انجم کے ایک معنی لونڈی زادے کے بھی ہوتے ہیں اور حقیقت یہ تھی کہ والی ریاست کنیز زادہ تھا۔ والی ریاست نے سمجھا کہ انشاء نے ان پر طنز کیا ہے، چنانچہ جیل میں ڈال دیئے گئے اور زندگی بھر جیل ہی میں رہ کر وہیں انتقال کیا۔ بعض لوگوں نے ان کو جیل میں دیکھا کہ گھٹنوں پر سر رکھے غمزدہ رہتے تھے۔ اس طرح صرف ایک لفظ نے ان کی پوری زندگی برباد کردی۔

اسی طرح ایک بہت بڑے ملک کے بہت بڑے رہنما کے منہ سے ایک مرتبہ ایک نامناسب بات نکل گئی، بعد میں احساس ہوا تو لیپا پوتی کی بہت کوشش کی، لیکن کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ تیر کمان سے نکل چکا تھا اور ملک ٹوٹ گیا۔ یعنی زبان کی بے احتیاطی کچھ نہ کچھ رنگ لاتی ہے۔ کلام دلوں کا زخم بھی ہے اور مرہم بھی، اس لئے عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ آدمی کم بولے اور جو کچھ بولے سوچ سمجھ کر بولے۔ الفاظ کا وزن اور تاثیر و تأثر ملحوظ رکھ کر بولے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیۂ کرام تصوف کے بعض نازک مسائل مثلاً وحدۃ الوجود وغیرہ پر زبان کھولنے سے منع فرماتے ہیں۔ ہر بات سطروں میں نہیں آتی، کچھ باتیں بین السطور بھی ہوتی ہیں۔ جگرؔ مرادآبادی نے خوب کہا ہے:

اے کمالِ سخن کے دیوانے!
ماورائے سخن بھی ہے اِک بات
ہر مسلمان اسلام کا مبلغ اور سفیر ہوتا ہے، اس کی ہر بات سے دنیا کو اسلام کا پیغام ملنا چاہئے۔ اس پیغام رسانی کے دو ذرائع ہیں، ایک زبان دوسرا عمل۔ زبان سے جو پیغام دیا جاتا ہے، وہ قرآن کی اصطلاح میں تلاوت کہلاتا ہے، جو اصطلاح میں تبلیغ کہلاتی ہے۔ پھر قرآن نے حکمت اور موعظہ حسنہ کا حکم دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ موعظہ حسنہ سے جو دعوت دی جائے گی، وہ زبان ہی سے دی جائے گی۔ ہم سب بحیثیت مسلمان اسلام کے سفیر اور مبلغ ہیں، اسلام کا پیغام ہم سب کو ساری دنیا تک پہنچانا ہے۔ یہاں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رکھیں کہ ہر شخص اپنے ماحول کا سفیر یا نمائندہ ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے خاندان، اپنے گھر اور اپنے ادارہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ لوگ اس کو دیکھ کر اس کے خاندان، گھر، ادارے اور ماحول کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔ لوگ آپ کو دیکھ کر آپ کے مذہب کے بارے میں اور آپ کے سلسلہ کے بارے میں رائے قائم کریں گے، اس لئے قدم قدم پر ہم سب کو اس سفارت کا احساس رہنا چاہئے۔ ہم زبان کے ذریعہ لوگوں کو جو پیغام دیں، وہ لوگوں کی اپنی زبان میں ہونا چاہئے۔ اسی لئے صوفیہ کرام کہتے ہیں کہ تم جس علاقے میں بھی جاؤ اور رہو، وہاں کی مقامی زبان سیکھو اور اسلام کا پیغام لوگوں کو ان کی اپنی زبان میں پہنچاؤ۔ افسوس کہ لوگوں نے مشائخ عظام کی اس اہم تعلیم کو فراموش کردیا، جس کی وجہ سے بڑی خرابیاں پیدا ہوگئیں اور اسلام کا پیغام بڑی حد تک محدود ہو گیا۔
یہ بات اچھی طرح یاد رکھئے کہ خلافت راشدہ کے بعد اسلام کی تبلیغ کا کام صوفیہ کرام نے ہی انجام دیا اور اس طریقے سے کیا کہ جہاں بھی گئے، وہاں کی مقامی زبان سیکھی اور اسی زبان میں لوگوں کو پیغام پہنچایا۔ اس بات میں بڑی گہرائی ہے، اللہ تعالی نے بھی اپنا ہر رسول اس کی اپنی قوم کی زبان میں بھیجا۔ قرآن کہتا ہے: ’’اور ہم نے جب بھی کوئی رسول بھیجا، خود اس کی قوم کی زبان میں بھیجا، تاکہ وہ ان کے سامنے حق کو اچھی طرح واضح کرسکے، پھر اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے‘‘ (سورۂ ابراہیم۔۴) مطلب یہ ہے کہ ہدایت دینا یا نہ دینا تو اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، لیکن جہاں تک رسول کے پیغام کو پہنچانے کا تعلق ہے، یہ کام قوم کی مقامی زبان میں ہونا چاہئے۔ تبلیغ و ارشاد کا کام اجنبی زبان میں نہیں ہوتا، صوفیہ کرام نے اسی طریقہ سے اسلام کا پیغام پہنچایا ہے، یہی قرآنی طریقہ ہے جو بالکل فطری اور صحیح طریقہ ہے۔ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ دہلی سے تشریف لائے تھے، ان کی زبان فارسی تھی، لیکن پہلے انھوں نے دکنی زبان سیکھی اور اس میں اتنا کمال پیدا کیا کہ آج دکنی یا اردو کی پہلی کتاب ان ہی کی مرہون منت ہے۔ صوفیہ کرام کے پاس مقامی زبان میں تبلیغ کو جو بڑی اہمیت دی گئی ہے، وہ اسی قرآنی تعلیم کا نتیجہ ہے۔ تبلیغ کو نظرانداز کردینا جہاں مقصدیت سے انحراف ہے، وہاں مقامی زبان سے صرف نظر کرلینا اس سے زیادہ بڑی غلطی ہے۔ (اقتباس)