حیدرآباد ۔7 جولائی (سیاست نیوز) ریاستی حکومت کی جانب سے زرعی مقاصد کیلئے مزید پانی کی فراہمی یا مشین بھاگیرتا کے تحت دراصل حیدرآباد اور اس کے نواح اور دیہاتوں کیلئے پینے کے پانی کی قلت کا سبب ہوسکتا ہے کیونکہ مانسون کی شروعات کے ایک ماہ بعد بھی خاطرخواہ بارش نہ ہونے کے سبب یہ حالات پیدا ہوئے ہیں۔ حیدرآباد اور اس کے نواح میں ناگرجنا ساگر (کرشنا) سنگور، مانجرا، سری سیلم اور سری پاڈا یلما پلی (گوداوری) ذخائر سے پینے کا پانی سپلائی کیا جاتا ہے اور اگر مانسون میں ایک یا دو ماہ کی تاخیر ہوتی ہے تو حکومت ان ذخائر آب سے زرعی مقاصد کیلئے پانی چھوڑنے کیلئے غور کرسکتی ہے جس کا اثر حیدرآباد پر پڑے گا۔ نہ صرف یہ بلکہ حکومت کے مشین بھاگیرتا اسکیم کے تحت اضلاع کو پینے کے پانی کی فراہمی پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔ برخلاف اس کے حیدرآباد میٹرو پولیٹن واٹر سپلائی اینڈ سیوریج بورڈ کے احکام کا کہنا ہیکہ اس کے ہاں پینے کے پانی کا اتنا ذخیرہ ہیکہ اگر مانسون میں ایک ماہ اور تاخیر ہوجاتی ہے تب بھی اس کے ذخائرآب میں اتنا پانی دستیاب ہیکہ وہ شہریوں کو اس سال کے اواخر اور ابتدائی نئے سال تک پانی مہیا کرسکتا ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ اس ذخائر آب کے پانی کو کوئی دوسرے مقاصد کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔ گریٹر حیدرآباد کو یومیہ 448 ملین گیلن پانی سربراہ کیا جاتا ہے جس میں سے 268MG کرشنا فیس I ، II ، III اور یلم پلی و گوداوری سے 132MG سنگور 18MG، مانجیرا 30MG شامل ہیں۔ اور ان ذخائر کے ذخیرہ کی گنجائش (39.816 tmcft) ہے جس میں عثمان ساگر (3.900)، حمایت ساگر (2.967)، سنگور (30,000) اور مانجیرا (1.500)۔ جبکہ ناگرجنا ساگر اور گوداوری ذخائر آب ریاستی آبپاشی کے تحت آتے ہیں۔ سال گذشتہ کا ذخیرہ (July 06,2017) 22.025 tmcft تھا اور موجودہ ذخیرہ 11.685 tmcft بشمول عثمان ساگر (1.681) حمایت ساگر (1.414)، سنگور (7.863) اور مانجیرا (0.350) ہے۔ حیدرآباد میٹرو پالیٹن اینڈ سیوریج بورڈ کی جانب سے اکم پلی (کرشنا) اور گوداوری سے ایمرجنسی پمپنگ کی جارہی ہے جس کی لاگت 1.84 کروڑ روپئے ہوگی۔ ذرائع کے مطابق گذشتہ چند سالوں سے مانسون میں تاخیر دیکھی جارہی ہے جس کے نتیجہ میں خاطرخواہ بارش اگست، ستمبر کے مہینوں میں ہی ریکارڈ کی جارہی ہے۔