یو پی اے حکومت نے عوام کو چند پیسوں کی راحت دے کر ان کے مستقبل کے گزارے کو مزید مشکل بنارہی ہے۔ وزیر فینانس چدمبرم نے یو پی اے حکومت کی 10 سالہ کارکردگی کے دوران ملک کے بجٹ کو کوئی مستحکم منصوبہ نہیں دے سکے تو آخری عبوری بجٹ میں اُنھوں نے معیشت کو مستحکم بنانے کے اقدامات کرتے ہوئے عبوری منصوبہ پیش کیا ہے۔ عبوری بجٹ کے حساب سے خسارہ کا نشانہ جی ڈی پی کے تناسب سے 4.1 فیصد بنایا ہے جو گزشتہ مالی سال میں اس جی ڈی پی کا نشانہ 4.9 تھا۔ آمدنی اور خرچ کے درمیان جو فرق پیش کیا گیا وہ صرف اعداد و شمار کا کھیل ہے۔ آئندہ مالیاتی سال کے دوران ضروری اشیاء اور کرنسی کے رجحان میں کیا تبدیلی آئے گی یہ تو بعد میں پتہ چلے گا۔ اس وقت وزیر فینانس نے بجٹ کے ذریعہ عوام کے لئے کاریں، ٹو وہیلرس، موبائیل فونس، صابن، چاول اور دیگر ایسی اشیاء سستی کردی ہیں جن کی قیمتیں زیادہ تر مارکٹ کے رجحان کے مطابق زیادہ کم ہوتی رہتی ہیں۔ البتہ اُنھوں نے اس بجٹ کو عام انتخابات کا بجٹ بنایا ہے جس میں عوام کے لئے راست کسی طرح کا مالی بوجھ عائد نہیں کیا۔ ٹیکس سے چھوٹ دے کر آٹو موبائیل انڈسٹری کو کسی قدر راحت فراہم کی ہے۔ انکم ٹیکس شرحوں میں کسی قسم کی کمی نہیں کی گئی۔ شخصی انکم ٹیکس یا تنخواہ یاب ملازمین کی انکم پر عائد ٹیکس کی حدوں کو اضافہ نہیں کیا گیا۔ جبکہ اس مہنگائی کے دور میں ٹیکس کی شرح اونچی ہے۔ معاشی اُمور سے وابستہ ماہرین نے وزیر فینانس پی چدمبرم کے اس بجٹ کو متوازن قرار دیا ہے کیوں کہ اس میں انھیں پیداوار پر مبنی بجٹ نظر آرہا ہے۔ ملک کی مارکٹ کا رجحان بجٹ کے حق میں ہے۔
ملک کی مالی حالت کو بہتر بنانے کے لئے اگر یہ بجٹ عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کے لئے بھی قابل قبول ہو تو پھر مالیاتی استحکام کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ عام انتخابات کے دنوں میں عوام کو ملک کی مالی حالت کو خوشنما بناکر پیش کیا جاتا ہے اور جب نئی حکومت اقتدار سنبھالتی ہے تو یہی مالی حالت بدنما دکھائی دینے لگتی ہے۔ مالیہ کو مضبوط بنایا گیا تو بین الاقوامی سطح پر روپے کی گرتی قدر کو روکنے میں مدد ملے گی۔ ساری دنیا کی اُبھرتی ہوئی مارکٹوں میں ہندوستانی کرنسی کو جھکولے کھاتے ہوئے دیکھا جارہا ہے۔ بیرونی زرمبادلہ اور افراط زر پر قابو پانے کے لئے گورنر آر بی آئی راجن کی جانب سے اُٹھائے گئے ٹھوس اقدامات سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے میں مدد ملی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے مالیاتی استحکام اور مالیاتی کارکردگی کو مؤثر بنانے کی کوشش ہوتی رہی ہے لیکن اس کے باوجود جوکھم سے پاک اور خسارہ سے محفوظ مالیہ بنانے میں خاص کامیابی نہیں مل سکی۔ مرکز میں کانگریس پارٹی ہو یا اور کوئی پارٹی عوام کے بنیادی مسائل برقرار رکھے جاتے ہیں۔ عوام کے سامنے مہنگائی کے بڑھتے پہاڑ کو مزید اونچا کیا جاتا ہے۔ عوام کی توقعات کو ہر سال کے بجٹ میں دھکہ پہونچایا جاتا ہے۔
انتخابات کے بعد کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سیاسی لڑائی کا معیشت پر کیا اثر ہوگا یہ عوام کے لئے مزید تکلیف دہ نہیں ہونا چاہئے۔ نریندر مودی کی لہر کو دیکھتے ہوئے کانگریس نے عبوری بجٹ پیش کرکے اپنا سیاسی کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اس بجٹ کے ذریعہ ملک کے مالیاتی نظام کو کس طرح بہتر بنائے گی یہ قابل غور ہوگا۔ عبوری بجٹ کو انتخابات والا بجٹ قرار دیتے ہوئے مالیاتی ماہرین نے جن توقعات اور اندیشوں کے ساتھ ملا جلا ردعمل ظاہر کیا ہے، اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وزیر فینانس پی چدمبرم نے ماقبل انتخابات میٹھے خواب سجائے ہیں۔ مالیاتی خسارہ کو دور کرنے کیلئے جن اقدامات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے وہ گزشتہ کئی برسوں میں پورا نہیں ہوسکا تو اس مختصر سفر کے دوران حکومت کس طرح پورا کرے گی۔ وزیر فینانس پی چدمبرم نے اپنا یہ 9 واں بجٹ پیش کرچکے ہیں لیکن ان کے ہر بجٹ کے بعد دوسرے بجٹ میں مالیاتی خسارہ کا نشانہ ہی پہلے سے زیادہ برھا ہے۔ اکسائز ڈیوٹی میں کمی کرنے کا فیصلہ سراسر ووٹ لینے کی پالیسی ہی ہوسکتی ہے۔ چدمبرم نے ایک طرف مالیاتی خسارہ کو کم کرنے کی بات کی ہے تو دوسری طرف اکسائز ڈیوٹی میں کمی کرکے خسارہ کو مزید دعوت دی ہے تو وہ مالیاتی خسارہ کو کم کرنے کے لئے متبادل اقدامات میں کس طرح کامیاب ہوں گے۔
ان کے اس بجٹ کی سچائی تو نئی حکومت کے آنے کے بعد پیش ہونے والے ملکی بجٹ میں آشکار ہوگی۔ اصل آزمائش نئی حکومت کے سامنے ہوگی کہ وہ مالیاتی استحکام کے لئے کیا اقدامات کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ فی الحال علی الحساب بجٹ سے ملک کے صارفین کو جو مہنگائی اور اپنے ماہانہ بجٹ کے درمیان جنگ کرتے آرہے ہیں کچھ راحت ملے گی۔ اکسائز ڈیوٹی کی کمی سے اگر عام صارف کو فائدہ ہوتا ہے تو یہ اچھی علامت ہوگی۔ مگر اصل تاجر سے لے کر مارکٹ کا عام بیوپاری انھیں ملنے والی سرکاری راحت کا حصہ صارفین تک پہونچاتے ہیں تو یہ خوش آئند بات ہوگی۔ عام طور پر بجٹ اقدامات کا فائدہ بڑے بیوپاریوں کو ہی ہوتا ہے کیوں کہ ان لوگوں نے جس چیز کی ایک مرتبہ قیمت میں اضافہ کیا اس میں بعدازاں کمی لانے کا دیانتداری سے عمل نہیں کرتے۔ اس لئے صارفین کو بجٹ راحت اقدامات سے باخبر رہ کر اشیاء کی خریداری کرنی چاہئے۔