مالدیپ کے ریسارٹ میں مجسموں کا انہدام

کولمبو۔25 ستمبر۔(سیاست ڈاٹ کام) مالدیپ میں سیاحت پر آئے سیاح اس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب یہاں پائے جانے والی مذہبی اور سیاسی کشیدگی کا انہوں نے اس وقت نظارہ کیا جب پولیس نے مالدیپ کے فیرمونٹ ریسارٹ پر کلہاڑیوں، کنکریٹ آریاں اور رسیوں کے ساتھ دھاوا کرتے ہوئے ان مجسموں کو مسمار کردیا جنہیں غیر اسلامی تصور کیا گیا تھا۔ صدر مالدیپ عبداللہ یامین کا استدلال ہے کہ مغرب کی تائید والا اپوزیشن مالدیپ میں اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کررہا ہے جبکہ اتوار کومنعقد شدنی انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ ایک نامکمل زیر تعمیر ایئرپورٹ کے ٹرماک (وہ جگہ جہاں طیارے لینڈنگ کرتے ہیں) پرکھڑے ہوکر انہوں نے اپوزیشن کو لعن طعن کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک میں ایسی مغربی اقدار کو فروغ دے رہے ہیں جو ہمارے اقدار اور سماج کے لئے ناقابل قبول ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک میں خوشحالی اور ترقی کے لئے انہوں نے جان توڑ کوششیں کی ہیں جبکہ اپوزیشن صرف باتیں بگھارنا اور جمہوریت کی دہائی دینا جانتی ہے۔ انہوں نے مغرب کی تائید والی جمہوریت کے نام پر کیا کیا اور کیا کررہے ہیں؟ ہم جنس پرستوں کے حق میں احتجاج کررہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر عبداللہ یامین نے ریسارٹ پر کئے گئے دھاوے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ عبداللہ یامین مالدیپ میں دوبارہ منتخب ہونے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے اپنی پانچ سالہ حکمرانی کے اختتام کے بعد جو دراصل بدعنوانیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات سے رقم ہے، نے جولائی میں فیر مونٹ مالدیپ سیروفین فوشی میں ایستادہ تقریباً 30 مجسموں کو مسمار کرنے کا حکم دیا تھا جس کے لئے انہوں نے یہ استدلال پیش کیا تھا کہ مجسموں سے عوام میں برہمی پائی جاتی ہے جبکہ دنیا کی پہلی جزوی زیر آب مجسموں کی گیلری کے بارے میں برٹش۔ گیانیز فنکار نے زیر آب ایستادہ مجسموں کی تائید کی تھی جس کے ذریعہ دراصل مالدیپ کی سمندری کیفیت کو ہمیشہ گرم ہوتے سمندروں کی تپش سے بچانا تھا جبکہ پولیس نے سیول عدالت کے ایک حکمنامہ کے تحت مجسموں کو یہ کہہ کر مسمار کردیا کہ عدالت نے انہیں اسلامی تعلیمات اور امن کے مغائر قرار دیا ہے۔ عدالت نے پولیس اور فوج کو حکم دیا تھا کہ اگر ریسارٹ کے ذمہ داروں نے اندرون پانچ گھنٹے زیر زمین تمام مجسموں کو نہیں ہٹایا یا مسمار نہیں کیا تو فوج اور پولیس کو مجسموں کو مسمار کرنے کا پورا اختیار ہوگا۔ ٹوئٹر پر دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک مجسمہ کے مسمار ہو جانے سے پولیس اور فوج کے اہلکار خوش ہورہے ہیں۔ پولیس نے بھی ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ 5:45 بجے تک تمام انسانی مجسموں کو مسمار کردیا گیا۔ 2011 میں بھی مجمسوں کے خلاف کارروائی کی گئی تھی جو دراصل پڑوسی ممالک کی جانب سے بطور تحفہ دیئے گئے تھے۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح کا مجسمہ جلا دیا گیا تھا جبکہ سری لنکا کے شیر کے مجسمہ کو بھی تہس نہس کردیا گیا تھا۔ بعد ازاں پولیس کو تمام مجسموں کو فوری طور پر ہٹانے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔