مادنا پیٹ کا سرکاری اردو اسکول صرف 3 کمروں پر مشتمل

کرائے کی عارضی عمارت کے درودیوار بوسیدہ، بنیادی سہولیات کا فقدان، 350طلبہ کیلئے 2 شفٹس

حیدرآباد ۔ 7 جولائی (سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت علحدہ ریاست کی تشکیل کے ساتھ ہی اقامتی اسکولس کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے لیکن شہر کے قلب میں موجود کئی سرکاری اسکولس زبوں حالی، بنیادی سہولیات کا فقدان اور اساتذہ کی کمی کی وجہ سے مسائل کی داستان بن چکے ہیں لیکن اس سمت نہ ہی حکومت اور نہ ہی محکمہ تعلیم کے عہدیداروں کی کوئی توجہ مبذول ہورہی ہے۔ ویسے تو شہر حیدرآباد اور سکندرآباد میں کئی ایسے اسکولس ہیں جو نام کو تو سرکاری ہیں لیکن یہاں بنیادی سہولیات کے فقدان کی ایک طویل فہرست موجود ہے اور ان ہی اسکولوں میں ایک اسکول ’’گورنمنٹ بوائز اسکول‘‘ مادنا پیٹ منڈی کے پاس کا ہے۔ 40 سالہ قدیم یہ اسکول نہ صرف اسبسطاس کی چھت میں موجود ہے بلکہ اس عمارت میں اتنے کمرے جماعت نہیں کہ اول تا 10 ویں جماعت کے تمام طالب علموں کو ایک ساتھ تعلیم دی جائے۔ بظاہر تو یہ بوائز اسکول ہے لیکن اس اسکول میں بوائز اینڈ گرلز (لڑکے اور لڑکیاں) دونوں ہی تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ جماعتوں کے کمرے ناکافی ہونے کی وجہ سے یہ اسکول 2 شفٹوں میں کام کررہا ہے۔ صبح کی شفٹ 9 تا ایک بجے دن ہے جس میں پہلی تا پانچویں جماعت کے طلبہ کو تعلیم دی جارہی ہے جبکہ دوسری شفٹ 2 تا 5 بجے کی ہے اور یہ چھٹی تا دسویں جماعت کے طالب علموں کیلئے تعلیمی اوقات ہیں۔ اس اسکول میں 350 طلبہ زیرتعلیم ہیں اور ان کیلئے صرف 9 کمرے جماعتوں کیلئے مختص ہیں جبکہ اردو میڈیم کیلئے صرف 3 کمرے دستیاب ہیں۔ علاوہ ازیں یہ اسکول کرائے کی عمارت میں چل رہا ہے اور دیواروں سے گچی اور چونا کے علاوہ مٹی بھی جھڑ رہی ہے۔ حکومت کے قواعد کے اعتبار سے لڑکے اور لڑکیوں کے لئے علحدہ بیت الخلاء ضروری ہے لیکن اس اسکول میں ایسی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اسکول کی لڑکیوں کے ساتھ چھیڑچھاڑ کے واقعات بھی ہوتے ہیں کیونکہ اسکول میں کوئی سیکوریٹی عمل نہیں ہے جس پر مادنا پیٹ پولیس اسٹیشن میں شکایت کی گئی جس پر شی ٹیم کی جانب سے اسکول کے نزد 2 کانسٹیبلوں کی خدمات فراہم کی گئی ہے۔