ماؤسٹوں کے مکتوب سے سنسنی

اُس آدمی کو بھلا زندگی سے کیا مطلب
جو آپ اپنے ہی سائے سے خوف کھاتا ہے
ماؤسٹوں کے مکتوب سے سنسنی
باغ میں درختوں پر بیٹھے کئی رنگ برنگے پرندے چہچہاتے رہتے ہیں، کیا یہ پرندے ایک دوسرے کی زبان سمجھتے ہیں، یا صرف اپنا اپنا گیت گاتے ہیں، ان دنوں ٹی وی چیانلوں پر بھی ایسے ہی چہچہاتے انسانوں کو دیکھا اور سنا جارہا ہے۔ ایک چیانل پر 3 سیاستداں بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ دوسرے چیانل پر چار مختلف مذہبی رہنما اپنا اپنا موقف بیان کررہے ہیں۔ تیسرے چیانل پر پانچ تجزیہ کار مناظرے میں مصروف ہیں۔ ان میں یہ بحث ہورہی ہیکہ وزیراعظم مودی کو راجیو گاندھی کی طرح قتل کرنے کا ماؤسٹوں نے منصوبہ بنایا ہے۔ یہ سب اپنا اپنا راگ الاپتے رہے۔ دوسرے کی بات کی نہ کوئی سنتا ہے اور نہ سمجھتا ہے۔ جہاں تک مودی کے قتل کرنے سے متعلق ماؤسٹوں کے منصوبے کا سوال ہے یہ سنگین مسئلہ ہے۔ اس پر غوروفکر کے بجائے حکومت کے حامی اداروں نے بحث و مباحثہ کو طول دینا شروع کیا ہے۔ اصل موضوع یہ ہیکہ پونے پولیس نے ایک مکان سے مکتوب برآمد کیا ہے، جس میں لکھا ہیکہ وزیراعظم نریندر مودی کا حشر بھی سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کی طرح کیا جائے گا۔ پولیس نے جن پانچ افراد کو ممنوعہ سی پی آئی ماؤسٹ سے وابستگی کے سلسلہ میں گرفتار کیا تھا ان میں سے ایک کے مکان سے یہ مکتوب مبینہ طور پر برآمد ہوا۔ اس مکتوب کو لیکر سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے مگر حکومت کے حامی اور مخالفین نے جو بیان بازی شروع کی ہے انٹرٹینمنٹ یا زیادہ سے زیادہ انفوٹینمنٹ سمجھ کر مزے کرو کہ یہ اسٹیج ڈراموں کے سواء کچھ نہیں ہے۔ وزیرفینانس ارون جیٹلی نے ماؤسٹوں کی خطرناک چالوں کا ذکر کرتے ہوئے اس مکتوب کو بعض سیاسی پارٹیوں کی کارستانی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تعجب خیز ہے کہ چھ سیاسی پارٹیاں حکمراں گروپ این ڈی اے کے خلاف ان ماؤسٹوں کو استعمال کررہی ہیں۔ دہشت گردی یا انتہاء پسندی کی تاریخ بتاتی ہیکہ کبھی بھی شیر کی سواری نہیں کرنی چاہئے ورنہ اس کا پہلا نوالہ آپ ہی ہوں گے۔ حکومت کے نمائندوں کو اس مسئلہ پر سنجیدہ ہونے کی ضرورت تھی مگر انہوں نے وزیراعظم مودی کے تعلق سے پھیلائی گئی مکتوب کی کہانی کو اپوزیشن پارٹیوں سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے مودی کو عوام کے سامنے بے بس اور بے کس ثابت کرکے ووٹ بنک کو مستحکم کرنے کا حربہ ظاہر کیا ہے۔ ارون جیٹلی کی نظر میں ماؤسٹوں کو اپنے سیاسی اغراض کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ وہ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ماؤسٹوں سے تمام سیاسی پارٹیوں کو ہوشیار و چوکنا رہنا ہوگا کیونکہ ماؤسٹ دستوری نظام کو پرتشدد طریقہ سے بیدخل کرنے میں ہی یقین رکھتے ہیں۔ جس مکتوب کی بات کی جارہی ہے اس میں مودی زیرقیادت ہندو فاشسٹ مکتوب کا ذکر کیا گیا ہے جو اپنی ناپاک قوت کے ذریعہ دیسی آدی واسیوں کی زندگیاں تباہ کررہی ہے۔ یہ مکتوب ہوسکتا ہیکہ درست ہو لیکن اس میں مکمل سچائی بھی نہیں ہوسکتی جیسا کہ کانگریس کے سنجے نروپم نے کہا کہ یہ وزیراعظم مودی کی پرانی چال ہے۔ جب وہ چیف منسٹر تھے تب بھی وہ ایسے حربے استعمال کرکے اپنی مقبولیت میں اضافہ کرتے تھے۔ جب کبھی انہیں محسوس ہوتا کہ ان کی مقبولیت میں کمی آرہی یا ان کے نام کی تشہیر نہیں ہورہی ہے تو وہ سرخیوں میں رہنے کیلئے اپنے قتل کے منصوبہ کی خبریں پھیلا دیتے تھے۔ لہٰذا یہ پتہ چلانا ضروری ہیکہ اس مرتبہ مکتوب کے حوالے سے کتنی سچائی ہے۔ ملک بھر میں حالیہ ضمنی انتخابات میں بی جے پی کی ناکامی اور مودی حکومت کی بدنامی نے عوام کی رائے بدلنے میں مدد کی ہے۔ ایسے میں مودی کے قتل کیلئے راجیو گاندھی طرز کا خودکش حملہ کرنے اور مودی کے روڈ شوز کو نشانہ بنانے کی تحریر والے مکتوب کی سچائی سے ہر ایک کو واقف نہیں کروایا جاسکتا۔ ہوسکتا ہیکہ یہ خط کسی خفیہ منصوبہ کا حصہ ہو لیکن سیکوریٹی اداروں کو چوکسی اختیار کرنا ضروری ہے۔ سی پی ایم کے سیتارام یچوری نے اس مکتوب کی سچائی کے بارے میں کوئی رائے ظاہر نہیں کی مگر ماؤسٹوں کے حوالے سے جو خبر چلائی گئی ہے تاکہ انتخابات کے سال سیاسی فائدہ اٹھایا جائے، اس لئے کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔ اس خط کی حقیقت و صداقت پر مبنی یہ سب کہانیاں اپنے اپنے منطقی انجام اور منزلوں تک پہنچ جائیں تو انتخابات آجائیں گے اور عوام پانچ سال غلط حکمرانی کو فراموش کرچکے ہوں گے۔ قوم پرستی کی آڑ میں مودی پرستی کی لہر نئی فضاء قائم کرے گی جس میں ایسا لباس زیب تن کیا جائے گا جو بے وقوفوں کو دکھائی نہیں دے گا اور مجمع کو بھی سانپ سونگھ جائے گا اور بالغ رائے دہندہ بے وقوف بن جائے گا۔
بینکنگ نظام میں بحران
ہندوستان میں بینکنگ بحران کی وجہ سے آنے والے دنوں میں ملک کے اندر بیرونی سرمایہ کاری کا گراف گھٹ جائے گا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے جیسا کہ ہندوستانی بینکوں کی صورتحال بیان کی ہے، اس سے مالیاتی تشویش لاحق ہوگی۔ نوٹ بندی اور دیگر بینک سے مربوط پالیسیوں نے مالیاتی نظام کو درہم برہم کردیا ہے۔ غیرکارکرد اثاثہ جات کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے اگرچیکہ بنک حکام نے پیشرفت کی ہے مگر رقومات کے بہاؤ میں بہتری لانے کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت بھی ظاہر کی گئی ہے۔ مودی حکومت میں بینکوں کے کام میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ دیگر یہ کہ سرکاری اسکیمات کو روبہ عمل لانے کیلئے بینک کا ہی سہارا لیا جارہا ہے۔ حال ہی میں بینک ملازمین کی دو روزہ ہڑتال سے بھی کروڑہا روپئے کا نقصان ہوا ہے۔ بینکوں کو درپیش مسائل کی یکسوئی میں متعلقہ اداروں اور وزارت کی عدم دلچسپی نے مسئلہ کو جوں کا توں چھوڑ دیا ہے۔ اصل مسئلہ بینک نظام میں پیدا ہونے والے بحران کا ہے جیسا کہ آئی ایم ایف نے بیرونی سرمایہ کاری کے بہاؤ میں کمی کا اشارہ دیا ہے تو ملک کے اندر بینکنگ نظام کی ماضی کی شان بحال کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بینکوں پر اس کے کھاتے دار بھروسہ کرنے کے ساتھ سرمایہ کاری کے خواہاں بیرونی ملکوں کے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کیا جاسکے۔