مئی کا مہینہ

آیا جب سے مئی کا مہینہ
تب سے ہی ہے جسم پسینہ
راتوں میں ہیں گرم ہوائیں
راتوں میں آرام نہ پائیں
گرمی میں باہر نہیں جانا
پڑھ لکھ آرام سے سونا
دیواریں ہیں دھوپ سے تپتی
اور فطرت ہے دھوپ سے بچتی
سڑکیں بھی ویران پڑی ہیں
عقلیں بھی حیران پڑی ہیں
گرمی سے بچتے ہیں پرندے
گرمی سے مرتے ہیں پرندے
شکر حق جتنا بھی کریں ہم
حق کا شکرانہ ہے ظفرؔ کم
ظفر فاروقی